مسلم ممالک کے ہتھیار خاموش ہیں
ایران نے اپنے قتل کیے گئے رہنماؤں کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل پر حملہ کیا ۔ 180 میزائل فضا میں چمک رہے تھے، مگر اسرائیل نے خوف میں لرزتے ہوئے ایک
بار پھر امریکہ کو پکارا، اور امریکا؟ وہ تو ہمیشہ تیار رہتا ہے۔یہ منظر نیا نہیں، یہی کھیل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ایک طرف اسرائیل اور امریکہ کا یہ
ناقابل تسخیر گٹھ جوڑ، دوسری طرف فلسطینی عوام کی تباہی، اور پھر کہیں دور عرب اور مسلمان ممالک کی خاموشی، بے بسی اور لاچاری کی داستان۔
ایسا لگتا ہے کہ آج کا مسلمان صرف تماشائی بن کر رہ گیا ہے، جس کے پاس نہ کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی کوئی مؤثر دفاعی قوت۔ اگرچہ خطے میں کچھ
مزاحمتی گروہ، جیسے حزب اللہ، حماس، اور انصار اللہ (حوثی)، اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن مسلمان ریاستوں کی دفاعی کمزوری اور بے
عملی روز بروز نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ 57 سے زائد مسلم اکثریتی ممالک ہونے کے باوجود، جب اسرائیل اور امریکہ مل کر غزہ یا لبنان پر بمباری کرتے ہیں، تو
اسلامی دنیا کا ردعمل صرف مذمتوں اور دعاؤں تک محدود رہتا ہے۔ آج کے مسلمان ممالک کے پاس وسائل تو ہیں، تیل کے ذخائر ہیں، پیسے کی فراوانی ہے،
لیکن جو نہیں ہے، وہ ہے دفاعی طاقت اور عسکری حکمت عملی۔ کیا یہ سوچنا بھی ممکن ہے کہ اتنے وسائل اور دولت کے باوجود مسلمان ممالک اسرائیل
کے سامنے یوں کمزور کیوں ہیں؟ کیوں فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی بمباری پر کوئی مؤثر فوجی جواب نہیں آتا؟ کیوں عرب دنیا کی فوجی صلاحیتیں
ان کی زمینوں اور عوام کی حفاظت میں ناکام ہو رہی ہیں؟۔غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے جواب میں بحیرہ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر
حملوں کو روکے بغیر اب تک واشنگٹن یمن میں انصار اللہ پر بمباری پر 1.8 ارب ڈالر سے 4 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اپریل میں ایران کی جانب سے اسرائیل کے
خلاف داغے گئے ڈرونز اور میزائلوں کو روکنے کے لیے اسرائیل، امریکا، برطانیہ اور فرانس کے مشترکہ آپریشن پر ایک ارب 10 کروڑ ڈالر لاگت آئی تھی۔ یکم
اکتوبر کا فوجی ردعمل ممکنہ طور پر اتنا ہی مہنگا تھا۔ کچھ عرب ممالک نے ایرانی میزائلوں کو روکنے میں بھی مدد کی، کیونکہ اسرائیل اکیلا اپنی حفاظت
نہیں کر سکتا۔ یہ سب کچھ یوں ہی نہیں ہوا۔ ماضی میں جب خلافتِ عثمانیہ ایک مضبوط ریاست تھی، تب مسلمانوں کی دفاعی قوت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
مسلمان فوجیں دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں کو فتح کر چکی تھیں۔ مگر آج کا منظر نامہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ مسلمان ممالک کے پاس نہ کوئی متحدہ
فوج ہے اور نہ ہی کوئی عسکری اتحاد جو اسرائیل جیسی جارح ریاست کا مقابلہ کر سکے۔مسلمان ممالک کے درمیان تقسیم، فرقہ واریت اور اندرونی
سیاسی کشمکش نے انہیں مزید کمزور کر دیا ہے۔ عرب دنیا میں جہاں ایک طرف دولت کی فراوانی ہے، وہاں دوسری طرف فوجی منصوبہ بندی اور قیادت کا
شدید فقدان ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل، جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹی ریاست ہے، مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ طاقتور اور منظم
فوجی قوت بن چکا ہے۔ امریکہ کے لیے جنگ تو جیسے ایک پسندیدہ کھیل بن چکا ہے، اور اسرائیل اس کھیل کا کھلاڑی۔ واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کے
لیے ہر ممکن فوجی اور مالی امداد کسی راز کی بات نہیں۔ امریکا کے دفاعی بجٹ میں اربوں ڈالر کی رقم صرف اسرائیل کی حفاظت کے لیے مختص ہوتی
ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل خود اپنے دفاع کے قابل نہیں؟ ۔امریکہ جنگ سے محبت کرتا ہے اور اسرائیل کے لئے جنگ کرنا پسند کرتا ہے۔ اس کی کئی
وجوہ ہیں۔واشنگٹن کو جنگ کا شوق ہے کیونکہ امریکی سیاست دان سمجھتے ہیں کہ اس سے معیشت کو فروغ ملتا ہے۔ امریکہ کے دفاعی بجٹ میں، جو اب
تقریبا 850 بلین ڈالر ہے، سالانہ 2-3 فیصد اضافہ ہوتا ہے، جس کی ایک وجہ ہے۔ جنگ کے نتیجے میں ملک بھر میں سیکڑوں بڑی اور چھوٹی کمپنیوں کے لیے
دفاعی اخراجات، سرمایہ کاری، ملازمتیں اور منافع حاصل ہوتا ہے، جن میں سے زیادہ تر ہر دو سال بعد منتخب عہدیداروں کی مہمات میں فراخدلی سے
عطیات دیتی ہیں۔ اسرائیل کی موجودہ صورتحال میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ امریکا پر اس قدر انحصار کر چکا ہے کہ اب وہ اپنے بل بوتے پر خود کو
محفوظ رکھنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ ایک علاقائی جنگ تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور امریکہ خود کو اسرائیل کی طرف سے اس میں گھسیٹنے کی
اجازت نہیں دے رہا ہے، بلکہ وہ رضاکارانہ طور پر اس میں شامل ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ واشنگٹن بڑی رقم رضاکارانہ طور پر اپنی عالمی ساکھ کو بہتر
بنانے اور گھریلو استعمال اور غیر ملکی برآمدات کے لیے منافع بخش معاہدوں کے ذریعے اپنے وسیع فوجی صنعتی کمپلیکس کو کھلانے کے لیے خرچ کرتا ہے۔
اسرائیل کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی سالانہ امداد میں زیادہ تر امریکی کمپنیوں سے خریدے گئے جنگی نظام شامل ہیں، لہٰذا یہ امریکی ملٹری انڈسٹریل
کمپلیکس میں ایک اہم سالانہ نقد انجکشن ہے۔اپنی جنگی مشینوں کو کھلانے اور دکھانے کے علاوہ امریکہ دیگر وجوہ کی بنا پر اسرائیل کے لیے جنگ کرنا
بھی پسند کرتا ہے۔ گزشتہ چوتھائی صدی میں امریکی عسکریت پسندی کی اس وراثت نے مشرق وسطیٰ میں تقریبا 60 فوجی اڈوں اور دیگر تنصیبات کو
جنم دیا ہے۔ کئی مسلمان ممالک امریکا اور مغرب کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے پاس وہی ہتھیار ہیں جو مغرب نے انہیں
دیئے ہیں، اور ان ہتھیاروں کا استعمال مغرب کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس طرح، مسلمان ممالک کے پاس جو بھی دفاعی صلاحیت ہے، وہ مغربی
طاقتوں کی محتاج ہو چکی ہے۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ فلسطینی عوام تنہا کھڑے ہیں، صرف چند مزاحمتی گروہ ان کے ساتھ ہیں۔ عرب ممالک کے سربراہان
کو شاید اپنے محلات اور تیل کی دولت کی فکر زیادہ ہے، عوام کی چیخوں کی نہیں۔