پاک ایران تجارتی تعلقات سے دشمن خائف

اگر تفتان کے علاوہ، ریگ ملک، قلعہ لدگشت کوھک اور سمندری ساحل پر گوادر کے علاوہ جیون اور پیشوکان میں بھی سرحدی بازار بنائے جائیں جو گوادر سے پہلے ایرانی سمندری سرحد کی زیادہ قریب ہیں تو سمگلنگ کے غیر قانونی دھندے پر قابو پایا جا سکتا ہے اور قانونی طریقے سے اربوں ڈالر کی تجارت ممکن ہو سکتی ہے
پاک ایران تجارتی تعلقات سے دشمن خائف
اس مضمون کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔

پاک ایران تجارتی تعلقات سے دشمن خائف


سعودی عرب اور ایران کی دوستی کے اچھے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔جو  دونوں ممالک کے درمیان صلح اور دوستی کیلئے کوشاں تھا۔

 

اب پاکستان اور ایران کے درمیان بھی ایک عرصہ بعد تعلقات میں دوبارہ وہی گرمجوشی نظر آنے لگی ہے جو کبھی پاک ایران تعلقات کا خاصہ تھی۔ ایران ہمارا پڑوسی برادراسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور1965 ئ کی جنگ میں پاکستان کی بھرپور  مدد کی۔

آج بھی پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان قائم آر سی ڈی شاہراہ کی یاد بہت سے دلوں میں تازہ ہے۔ جب کراچی تا تہران و استنبول تک ٹرانسپورٹ اس سڑک پر رواں دواں رہتی تھی

ایران کے ساتھ ہمارے زمینی سرحد کے علاوہ سمندری سرحد بھی لگتی ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو دونوں برادر ملکوں کے درمیان سیاسی سماجی واقتصادی تعاون بڑھانے کیلئے بے شمار مواقع بھی ہیں اور راستے بھی۔ فی الحال تفتان کے راستے سڑک اور ٹرین کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اگر اس کے علاوہ دیگر سرحدی پوائنٹس بھی کھولے جائیں اور سمندری راستے سے بھی چاہ بہار  اور گوادر تجارتی پوائنٹس قائم کئے جائیں تو دونوں ممالک کے درمیان بڑی اچھی کاروباری راہیں کھل سکتی ہیں۔

پاکستان ایران سے ۱۰۰ میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بولان گبد کا بھی افتتاح کیا گیا جس سے سرحدی علاقے اور پنجگور گوادر کو بجلی فراہم کی جائے گی۔

اسی طرح اگر اس ایک ہزار کلومیٹر طویل بارڈر پر دیگر انٹری پوائنٹس پر بھی ایسے تجارتی مراکز و بازار قائم کئے جائیں تو دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس وقت بھی دونوں ممالک اس تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک پہنچانے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔

 

اس طویل سرحد پٹی پر درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں زمینی اور سمندری راستے سے روزانہ ہزاروں لٹر پٹرول سمگل ہوکر پاکستان لایا جاتا ہے۔ یہ کام پہلے علاقے کے بلوچ قبائل کا ذریعہ معاش تھا۔ اب اس پر بڑے بڑے سمگلر اور مافیاز نے قبضہ کر لیا ہے جو معمولی معاوضہ غریبوں کو دیکر خود اربوں روپے کماتے ہیں

۔ دونوں ممالک کے درمیان عرصہ دراز سے گیس پائپ لائن بچھا کر ایران سے گیس کی فراہمی کا کام ایران مکمل کر چکا ہے۔

 

اب پاکستان پر جرمانے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس سے بچنے کیلئے اسے فوری کام مکمل کرنا چاہئے۔اس وقت امریکہ بھی عالمی حالات کی وجہ سے سعودی عرب ایران تعلقات میں بہتری کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والی گرمجوشی پر خاموش ہے تو پاکستان گیس پائپ لائن والا کام مکمل کر کے ارزاں نرخوں پر ایران سے گیس حاصل کر سکتا ہے۔

مگر  یاد رہے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے لیے یہ تعلقات میں بہتری ناقابل برداشت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے زرخرید دہشت گرد گروپ ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں جنہوں نے پہلے ایران سے پاکستانی بارڈر پر کچھ دن قبل فائرنگ کر کے پاکستان کے 4فوجی شہید کئے اب مختصر وقفے کے بعد مسلح شرپسندوں نے پاکستان کے علاقے سے ایران پاسداران پر حملہ کر کے 6 افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس پر دونوں ممالک کے درمیان فوری رابطہ ہوا اور دہشت گردوں کے خلاف مل کر موثر کارروائی کا عزم کیا گیا۔

بھارت خود بھی ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ وہ نہیں چاہے گا پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے اس طرح اس کا پتا وہاں سے صاف ہو سکتا ہے۔

 

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک ایران بارڈر پر اہم مقامات پر تجارتی مراکز قائم کر کے دونوں ممالک باہمی تعلقات و تجارتی تعلقات  کو بڑھایا جائے سی پیک کی وجہ سے ایسے تجارتی پوانٹس کا فائدہ دو چند ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی قریبی ملک ہونے کی وجہ سے ہم ایرانی تیل و گیس حاصل کرکے آمد ورفت کہ اخراجات کی مد میں اربوں روپے بچا سکتے ہیں۔

 

اگر افغانستان کو بھی شامل کر کے آر سی ڈی شاہراہ کے منصوبے کو بحال کر دیا جائے تو کابل ، کوئٹہ، تہران و استنبول کے درمیان سڑک اور ٹرین کی بدولت سالانہ اربوں ڈالر کی تجارتی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اس سے علاقہ میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔

چین بھی سی پیک کو اسی طرح افغانستان، ایران، ترکی تک لے جانے کا خواہاں ہے جس کی بدولت پاکستان میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کا باب کھل سکتا ہے۔

 

گرچہ یہ سب کچھ بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے لیے آسانی سے قابل قبول نہ ہو گا۔ مگر روس اور چین کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی کی وجہ امریکہ کے لیے بھی آسان نہ ہو گا کہ جنوبی ایشیا میں من مانی کارروائیاں کر سکے۔ اس وقت روس ، چین اور ایران خطے کے وہ ممالک ہیں جو امریکی دبائوسہنے کے باوجود اپنی پالیسیاں خود بنا رہے ہیں۔

پاک ایران بارڈر پر دونوں طرف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ جو صدیوں سے باہمی رشتہ داریوں سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں یہ علاقہ بلوچستان اور ایران میں سیستان کہلاتا ہے۔ اس سرحدی پٹی پر اگر تفتان کے علاوہ، ریگ ملک، قلعہ لدگشت کوھک اور سمندری ساحل پر گوادر کے علاوہ جیون اور پیشوکان میں بھی سرحدی بازار بنائے جائیں جو گوادر سے پہلے ایرانی سمندری سرحد  کی زیادہ قریب ہیں تو سمگلنگ کے غیر قانونی دھندے پر قابو پایا جا سکتا ہے اور قانونی طریقے سے اربوں ڈالر کی تجارت ممکن ہو سکتی ہے۔ اسی بات سے ہمارے دشمن پریشان ہیں اور وہ حالات خراب کرنے کے لیے دہشت گردوں کو استعمال کر رہے ہیں۔


 

تجویز کردہ مضامین:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے