ایران پر اسرائیل کا حملہ، جو امریکہ کی پیشگی منظوری اور اعانت سے ہوا، یہ مسلم اکثریتی ممالک کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کس طرح مسلم مخالف ممالک اپنے مفادات کے لئے دنیا کو ایک نئی اور خطرناک جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کردیتے ہیں اور انہیں اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس حملے کی نوعیت اور اس کے اثرات سے خطے میں تباہی کے ایک نئے دور کا آغا ز ہوسکتا ہے۔
یہ حملہ جو ردعمل کے نام پر کیا گیا ، کس طرح عالمی امن کے خواب کو بکھیر دینے والا ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ صرف دو ممالک کے درمیان جھگڑا نہیں رہا، بلکہ اس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے، اور جس طرح مغربی طاقتیں، خاص طور پر برطانیہ، امریکہ کے ساتھ کھڑی ہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا ایک تیسری اور شاید سب سے خطرناک عالمی جنگ کے دہانے پر ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کا اتحاد ہمیشہ سے ہی مشرق وسطیٰ کے مسائل میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا ہے،۔ حالیہ حملے میں امریکہ کی شرکت اور اس کا ایران کے خلاف جارحانہ رویہ کسی تباہی سے کم نہیں۔ امریکہ نے نہ صرف اسرائیل کو اس حملے کی پیشگی اجازت دی بلکہ ہر طرح کی سفارتی، فوجی اور مالی اعانت بھی فراہم کی۔ یہ واقعہ مسلم اکثریتی ممالک کے لئے ایک سنگین اشارہ ہے کہ مغربی سامراجی طاقتیں اپنی طاقت اور مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی اصول کی پرواہ نہیں کرتیں۔
ایران اور امریکہ کے درمیان دہائیوں سے چلی آ رہی کشیدگی ایک ایسے نقطے پر پہنچ چکی ہے جہاں جنگ کی چنگاری کسی بھی لمحے پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اسرائیلی طیارے ایران کی فضاؤں میں موت کا پیغام لے کر گئے اور اپنی جارحیت کے ذریعے دنیا کو یہ باور کروا دیا کہ وہ کسی بین الاقوامی قانون یا اقوام متحدہ کے چارٹر کو نہیں مانتے۔ یہ حملے محض اسرائیل کی جانب سے اپنی طاقت کے اظہار کا ذریعہ نہیں تھے، بلکہ امریکہ اور مغربی سامراج کی ایک سازش کا حصہ تھے، جو مشرق وسطیٰ کو مزید کمزور کرنے کے درپے ہیں۔
اسرائیلی حملے کا جواز ہمیشہ’’دفاع‘‘ کے نام پر دیا جاتا ہے، مگر حقیقت میں یہ حملے خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی ایک منظم کوشش ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے ایران کی کئی اعلیٰ فوجی شخصیات کو نشانہ بنایا اور یہاں تک کہ ایران کے اندر موجود فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ کو بھی قتل کر دیا۔ یہ کارروائیاں اسرائیل کی خفیہ جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں، جن کا مقصد ایران کو کمزور کرنا اور فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ایران کے لیے یہ حملہ محض ایک چیلنج نہیں تھا بلکہ ایک کھلا اعلان جنگ تھا۔ ایران نے اس جارحیت کا بھرپور جواب دیا اور اسرائیل پر میزائل حملے کیے، جس کے بعد اسرائیل نے ایرانی فوجی تنصیبات پر مزید حملے کیے۔
اسرائیل نے دنیا کے سامنے اپنی درندگی کو اس طور پر پیش کیا کہ وہ ایران کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات کو نہیں چھیڑ رہا، مگر حقیقت میں اس کا مقصد صرف عالمی برادری کو دھوکہ دینا تھا تاکہ اسرائیلی جارحیت پر سوالات نہ اٹھائے جائیں۔ مسلم دنیا کے دلوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، اور عوام میں اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں، اسرائیلی جارحیت کو نہ صرف فلسطینی عوام کے خلاف ظلم سمجھا جا رہا ہے بلکہ اسے اسلامی دنیا کی سا لمیت پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب جیسے ممالک کے لیے یہ حملے ایک پیچیدہ سفارتی چیلنج بن گئے ہیں، کیونکہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے تھے، مگر اب ان کی یہ کوششیں بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔موجودہ صورتحال نہایت خطرناک ہے، کیونکہ یہ تنازع محض ایران اور اسرائیل تک محدود نہیں رہے گا۔ امریکہ، برطانیہ، اور دیگر مغربی طاقتوں کی شمولیت اس جنگ کو ایک عالمی تصادم میں تبدیل کر سکتی ہے، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ دنیا کے لیے تباہ کن ہو گا۔ روس اور چین جیسے ممالک بھی اس تنازع کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں، اور اگر صورتحال مزید بگڑتی ہے تو یہ عالمی طاقتیں بھی اس جنگ کا حصہ بن سکتی ہیں۔اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگ نے عالمی سطح پر تباہی کی ایک نئی داستان کو جنم دیا ہے، اور اگر یہ جنگ مزید پھیلتی ہے تو اس کا نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے اس صورتحال میں بے بس نظر آتے ہیں، اور امن کی بحالی کے لیے کوئی مؤثر قدم اٹھانے میں ناکام ہیں۔ جنگ کا سب سے بڑا نقصان انسانیت کو اٹھانا پڑتا ہے۔ لاکھوں بے گناہ لوگ ان حملوں میں اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں، اور جو بچ جاتے ہیں وہ تباہ شدہ شہروں، بھوک، افلاس، اور بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری یہ جنگ بھی ہزاروں معصوم لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگا چکی ہے۔ایرانی عوام، جنہوں نے پہلے ہی اقتصادی پابندیوں اور عالمی سیاسی کھیلوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے، اس جنگ کے مزید نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جنگ کی تباہی نے انہیں غربت، بے گھری، اور بنیادی سہولیات کی قلت کی صورت میں مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کے حملے صرف فوجی تنصیبات تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ان کے نتیجے میں شہری آبادی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔حالیہ جنگی حالات نے دنیا کو ایک تلخ سبق دیا ہے کہ جب تک سامراجی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کمزور ممالک کو نشانہ بناتی رہیں گی، تب تک دنیا میں امن کا خواب محض ایک سراب رہے گا۔ اس امر کا ادراک کرنا ہو گا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی، بلکہ مسائل کو مزید بگاڑتی ہے۔