ایران اور پاکستان نے اگلے پانچ سالوں میں باہمی تجارت 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان آٹھ شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔
ابھی پاکستان اور ایران میں رجسٹرڈ تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ایران کی برآمدات تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر ہیں جبکہ پاکستان تقریباً آٹھ ملین ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے 75 سالوں میں جو تجارت صرف دو ارب ڈالر تک پہنچ سکی وہ اگلے پانچ سالوں میں 10 ارب ڈالر تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟
سابق چیئرمین پاک ایران بزنس کونسل (ایف پی سی سی آئی ) نجم الحسن جاوا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’پاکستان ایران آفیشل تجارت 10 ارب ڈالر سے بڑھ سکتی ہے لیکن اس کے لیے سیاسی سطح پر دیرپا پالیسی بنانے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔
’رجسٹرڈ تجارت تقریباً دو ارب ڈالرسے زیادہ ہے۔ غیر رجسٹرڈ تجارت شاید طے کیے گئے ہدف سے ابھی بھی زیادہ ہے۔
پاکستان میں اس وقت تقریباً 26 فیصد ایل پی جی استعمال ہو رہی ہے جو 99 فیصد ایران سے آ رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی غیر رجسٹرڈ تجارت کا حجم بھی بہت زیادہ ہے۔ گوادر، پنجگور کو بجلی ایران سے آ رہی ہے۔ گوادر میں صاف پانی، دودھ، دہی اور ڈبل روٹی تک ایران سے آتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تجارت کو قانونی طریقے سے کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے مسئلہ بینکنگ ٹرانزیکشن کا ہے۔ بارٹر ٹریڈ کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن دونوں اطراف سے غیر سنجیدگی دکھائی جاتی ہے۔
بقول نجم الحسن: ’ایران نے پاکستانی ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس لگا رکھا ہے جس کی وجہ سے پاکستان ایران میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ نہیں کرتا۔ اگر ٹیرف کم کر دیا جائے تو پاکستانی ٹیسکٹائل کے بدلے پیٹرولیم مصنوعات آفیشل طریقے سے پاکستان منگوائی جا سکتی ہیں
اس وقت پاکستان کی ایران میں سب سے بڑی ایکسپورٹ چاول ہے، جس کی ادائیگی بارٹر سسٹم کے تحت ہوتی ہے۔ پاکستان اپنے چاولوں کی ایکسپورٹ کے بدلے گودار اور پنجگور میں بجلی کے بل کو ایڈجسٹ کرواتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا، ترکی اور چین سمیت کئی ممالک ایران سے تجارت کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بیلجیم، فرانس اور سوئٹزر لینڈ بھی بذریعہ ترکی انوائس سلپنگ کے ذریعے ایران سے تجارت کر رہے ہیں۔
’ان حالات میں امریکہ کو اپنی مجبوریاں بتا کر پاکستان ایران ٹریڈ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہمارے زمینی بارڈر ساتھ ملتے ہیں۔ تجارت میں بہت آسانی ہے لیکن عملی میدان میں اس پر کام ہونے کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔‘
دوسری جانب سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بتایا کہ ایران اور پاکستان میں تجارت کا انحصار اس بات پر ہے کہ امریکہ ایران پر کتنی پابندیاں لگاتا ہے یا اٹھاتا ہے۔
’اگر ایران پر سے پابندیاں اٹھ جاتی ہیں تو پاکستان ایران تجارت 10 ارب ڈالر سے بڑھنا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے سخت ردعمل آئے گا اور آنے والے دنوں میں ایران پر مزید پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں
اگر پاکستان ایران تجارت پر زیادہ دباؤ بڑھایا گیا تو پاکستان کو نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ طے کیے گئے اہداف طے شدہ وقت میں حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں نے فری ٹریڈ معاہدے کو حتمی شکل دینے، سیاسی اور تجارتی کمیٹیوں کے اجلاس اور جوائنٹ اکنامک کمیشن کے 22 ویں جائزے پر بھی اتفاق کیا ہے لیکن ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔
’پاکستان ایران تعلقات پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہو جاتے ہیں۔
چند دن قبل بارڈرز پر حملے ہو رہے تھے اور اب تجارت بڑھانے کے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ کب اس میں رکاوٹ آجائے کچھ پتہ نہیں۔ امریکہ نے بھی کہا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پرغور کرنے والوں کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ممکنہ پابندیوں سے آگاہ رہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر تجارت بڑھانے کی کوئی صورت حال پیدا ہو بھی گئی تو اس کا فائدہ پاکستان سے زیادہ ایران کو ہو گا کیونکہ ایران کے پاس پیٹرولیم مصنوعات سمیت سینکڑوں اشیا ایسی ہیں جنہیں بیچا جا سکتا ہے،
لیکن پاکستان صرف زرعی اجناس اور ٹیکسٹائل بیچ سکتا ہے۔
پاکستان کو بھی اس کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مہنگائی میں کمی آسکتی ہے اور رجسٹرڈ تجارت بڑھنے سے ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ڈالروں کی سمگلنگ میں کمی آسکتی ہے۔ ’اس وقت سمگلنگ کا عروج ہے اور ادائیگیاں ہنڈی حوالے اور ڈالرز کی سمگلنگ سے ہو رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے ڈالر کو مستحکم رکھنے کے لیے پچھلے ایک سال میں تقریباً پانچ ارب ڈالرز خریدے ہیں جس کا ملک کو نقصان ہوا۔‘