خلیجی عرب ریاستوں کوخوش مگرایران کو ناراض کردیاتھالیکن آج کامشرق وسطیٰ چارسال پہلے کے اس مشرقِ وسطیٰ سے بہت مختلف ہے جب ٹرمپ وائٹ ہائوس کوچھوڑکرگئے تھے۔
اسرائیل کی حماس اورحزب اللہ کے خلاف جنگ جاری ہے جبکہ اس نے یمن میں حوثیوں اورایران میں ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔
خطے میں بائیڈن انتظامیہ کاتاثر ایساہے کہ وائٹ ہائوس اپنے قریبی اتحادی اسرائیل کوغزہ اورلبنان کی جنگوں کے دوران روکنے میں مئوثرکردار ادانہیں کر سکا۔ خیال ہے کہ ٹرمپ کی وائٹ ہاس واپسی سے اسرائیل کومزید’’فری ہینڈ‘‘ملے گاکہ وہ ایران میں ان اہداف (تیل اورجوہری تنصیبات)کونشانہ بناسکے جنہیں بائیڈن انتظامیہ نے روک رکھاتھا۔
سابق اسرائیلی انٹیلی جنس افسرجوشواسٹینرچ ٹرمپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’وہ خطے میں اسرائیل کے اہم اتحادی اوراسرائیل کی کھل کرحمایت کرتے ہیں اورایران کی عدم استحکام کاباعث بننے والی کوششوں کے خلاف سخت مؤقف رکھتے ہیں۔ان کی واپسی کواس تناظر میں دیکھا جائے گاکہ اس سے ایران کے اثرورسوخ کوکم کرنے کے لئے ٹھوس کوششیں ہوں گی‘‘۔
سعودی عرب کے اعلیً سطح کے وفدکے ایران پہنچنے کے بعدایرانی صدرمسعودپزشکیان نے سعودی عرب کے ولی عہدمحمدبن سلمان سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیااوراس بات چیت کے دوران عرب اسلامی کانفرنس پرتبادلہ خیال کیاگیا۔اس کانفرنس کے لئے عرب اورمسلم ممالک کے رہنماکے علاوہ ایرانی نائب صدر محمد رضاعارف اس کانفرنس میں شرکت کے لئے ریاض پہنچ گئے ہیں۔تاہم پیر کے روزریاض میں مسلم اورعرب ممالک کے اجلاس میں سعودی ولی عہدمحمدبن سلمان نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو’’نسل کشی‘‘قراردیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی اوراسرائیل کوایران پرحملوں کے خلاف خبرداربھی کیا،جوتہران اورریاض کے درمیان بہترتعلقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
غزہ میں گزشتہ برس جنگ کے آغازکے بعدسے سعودی حکام کی جانب سے پہلی باراتناسخت بیان سامنے آیاہے۔سعودی عرب کی زیرِقیادت ریاض میں عرب اوراسلامی ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب میں محمدبن سلمان نے لبنان اورایران پراسرائیلی حملوں کی مذمت بھی کی۔اس کانفرنس کی بنیادی ترجیح فلسطین اور لبنان کے علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کو روکنا،عام لوگوں کوتحفظ فراہم کرنااورخطے میں امن واستحکام کے قیام کیلئیعالمی برادری پردباڈالناہے۔
چین کی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتربنانے کی ثالثی کے بعدایک دوسرے کے حریف سمجھے جانے والے ایران اور سعودی عرب گزشتہ سال سے قریب آناشروع ہوگئے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات2016ء سے بہت خراب تھے جب ایرانی مظاہرین نے تہران اورمشہدمیں سعودی سفارتی مشنوں پرحملہ کیاتھا۔
گزشتہ اکتوبرکے آغازمیں ایران کے وزیرخارجہ عباس عراقچی ریاض پہنچے تھے اورولی عہدسے ملاقات بھی کی تھی۔اس کے بعدسے دونوں ملکوں کے تعلقات میں قدرے بہتری آئی۔ سعودی وزارتِ دفاع کے مطابق گزشتہ اکتوبرمیں سعودی عرب نے بحیرہ عرب میں کئی ممالک کے ساتھ بحری مشقیں کی ہیں جن میں ایران بھی شامل ہے۔تاہم اسی دوران ایران کی خبررساں ایجنسی اسنا نے اطلاع دی تھی کہ ایران کی فوج روس اور عمان کے ساتھ شمالی بحرہندمیں مشترکہ فوجی مشقیں کررہی ہے جس میں سعودی عرب سمیت چھ دیگرممالک بھی شامل ہیں ۔
ایرانی فوجی کمانڈرایڈمرل شہرام ایرانی نے کہاتھاکہ سعودی عرب نے بحیرہ احمرمیں مشترکہ فوجی مشقوں کی درخواست کی تاہم فوجی مشقوں کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں بتائی گئی۔
سعودی عرب کے اعلی سطح کے فوجی وفدکادورہ ایران ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب اسرائیل کی جانب سے ایک نیادعوی کیا گیاہے۔اسرائیل کاکہناہے کہ وہ علاقائی سلامتی کے لئے بحیرہ احمرمیں امریکاکی سربراہی میں ایک اتحادبنایاجارہاہے جس میں اسرائیل،اردن، مصراور سعودی عرب شامل ہوں گے۔اسرائیل کے مطابق بحیرہ احمرمیں فوجی تعاون کامقصدبحری نقل وحمل،تیل، گیس اورسٹریٹجک اثاثوں کوایرانی خطرے سے بچاناہے۔ امریکاکے ساتھ تاریخی تعلقات رکھنے کے باوجودسعودی ولی عہداس خطے کی اہم ترین شخصیت بن گئے جنہوں نے ایران کے معاملے پردل وجان سے کام کیا۔
اگرچہ چین کی ثالثی میں ایران اورسعودی عرب دو سال سے بھی کم عرصے میں ایک دوسرے کے قریب آنے لگے لیکن یہ مذاکرات اوران کے نتائج کسی اتحادکی وجہ سے نہیں کیونکہ تہران اورریاض کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی
۔سعودی عرب روایتی طورپرمشرق وسطیٰ میں امریکاکے سب سے بڑے اتحادیوں میں سے ایک ہے۔اپنی خارجہ پالیسی میں وہ پوری کوشش کرتاہے کہ امریکاکے مفادات اور مطالبات پرسوال نہ اٹھائے جائیں۔اس کے ساتھ سعودی عرب اورایران کے درمیان علاقائی مقابلے کی تاریخ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ سے بھی زیادہ طویل ہے۔ اسرائیل کی لبنان میں جاری فوجی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کاسلسلہ بھی جاری ہے اوراس تنازعے میں ابھی تک جنگ بندی کاکوئی امکان نظر نہیں آ رہا ۔
اس سب کے دوران امریکاکاصدارتی الیکشن ایک ایساشخص جیت چکاہے جواسرائیل کی مکمل حمایت کرتاہے اورایران کے ساتھ ایک سخت معاہدے کاوعدہ کرکے بھی آیاہے۔بہت سے ماہرین کاکہناہے کہ وائٹ ہائوس میں ٹرمپ کی واپسی کامطلب ہے کہ مشرق وسطیٰ میں حالات مزیدکشیدہ ہوجائیں گے۔اگریہ پیشگوئیاں درست ثابت ہوئیں توخطے کے بہت سے ممالک،خاص طورپرسعودی عرب جیساوہ ملک جوامریکا کے ساتھ اچھے اورقریبی تعلقات رکھتاہے،کوایک مشکل فیصلہ کرناہو گا۔کیاانہیں ایران کاساتھ دینا چاہیے یااس فوجی کشیدگی میں غیرجانبداررہناچاہیے؟
لیکن ایک ایسے وقت میں جب مسلم دنیامیں اسرائیل کے خلاف غصہ انتہاکوپہنچ چکاہے تواس صورتحال میں سعودی عرب، مصر ،اردن اورمتحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی ایران اوراسرائیل کے بارے میں’’غیرجانبداری‘‘کی انہیں بھاری قیمت چکاناپڑ سکتی ہے لیکن اس کاواضح جواب محمدبن سلمان نے اپنی تقریردیاہے کہ وہ امریکااور اسرائیل کے کٹھ پتلی بادشاہ کے طورپر پہچانے جانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
یہ پوزیشن نہ صرف خطے میں ان کی پوزیشن پرمثبت اثرڈال سکتی ہے بلکہ خطے میں طاقت پرمبنی تعلقات میں بھی سعودی عرب کے کردارکے لئے بھی اہم ہے۔
خاموش رہنے اورایران اوراسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کونظراندازکرنے کی بجائے سعودی عرب اب کھل کراسرائیل کے خلاف،ایران کے حق میں سامنے آیاہے۔
محتاط الفاظ کااستعمال کرتے ہوئے محمد بن سلمان نے’’بین الاقوامی برادری‘‘سے خطاب کیا اورعملی طورپرمغربی دنیاکواپنی تقریرکے حقیقی سامعین کے طورپرمنتخب کیا۔یہ کام دراصل سعودی عرب کے چہرے کوازسرنوِ تعمیرکرنے اوربین الاقوامی سطح پراس ملک کی پوزیشن کونئے سرے سے متعین کرنے کی ان کی کامیاب وسیع مہم کاتسلسل ہے، جو کئی سال پہلے شروع کی گئی تھی۔اس تقریر سے یہ واضح ہوتاہے کہ محمدبن سلمان اب ایران کے خلاف توازن قائم کرنے کے لئے اسرائیل یاامریکاسے قربت کی تلاش میں نہیں۔اس کے برعکس اس باروہ اسرائیل کی طاقت میں اضافے سے پریشان ہیں،ایک ایساعمل جواب بھی جاری ہے اوراگراس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تواس سے خطے پراسرائیل کاغلبہ بڑھ سکتاہے جس کے تدارک کے لئے یقیناایک مؤثراتحادکی کوششیں جاری ہیں جس کے لئے یقیناخطے کے تمام ممالک سرجوڑکربیٹھیں ہیں کہ آئندہ ممکنہ خطرات سے بچنے کے لئے میدانِ عمل میں ایساجامع ٹھوس ردعمل سامنے لایا جائے جواس طوفان کامنہ پھیرسکے۔