بدھ کی سہ پہر آل انڈیا کانگرس (راہول گاندھی، سونیا گاندھی والی)کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے گجرات کے قصائی اور اب ملک کے پردھان منتری نریندر مودی کو بے شرم انسان قرار دیا (اس بیان پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ بے شرم کی حد تک تو بات ٹھیک لیکن ایک راکھشش کو انسان کہنا قطعی غیر پارلیمانی حرکت ہے) اور اسی رات اس بے شرم راکھشش نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ پانچ شہروں پر اس نے میزائل برسائے اور تمام ٹارگٹ سویلین تھے اور ہدف مسجدیں تھیں۔ پورے بھارت میں اور بھارت کی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ مساجد شہید کرنے والے راکھشش نے پاکستان میں بھی مسجدوں ہی پر حملہ کیا۔ ان حملوں میں شہید ہونے والے تمام 26 افراد سویلین تھے جن میں بچے بھی تھے اور عورتیں بھی۔
حملے کی خبر پھیلتے ہی امریکی صدر ٹرمپ نے اسے شرمناک کام قرار دیا۔ گویا خبر کی اجتماعی سرخی یوں تھی کہ بے شرم راکھشش کا شرمناک حملہ۔
مودی نے حملے کو آپریشن سندور کا نام دیا۔ بظاہر وہ پاکستان سے مانگ بھر دو سجنا کی فرمائش کرتا ہوا نظر آیا اور پاکستانی فضائیہ اور آرٹلری نے اس کی یہ فرمائش پوری کر دی۔ ایک بریگیڈ اور ایک بٹالین ہیڈ کوارٹر سمیت چھ سات فوجی اڈے منٹوں کے اندر اڑا کر رکھ دیئے اور بھارتی فضائیہ کے چھ جہاز، بھارتی سرزمین پر ہی بھسم کر دیئے اور ان چھ میں، دو جدید ترین رافیل طیارے بھی تھے جن کی خریداری پر پوری ہندتوا برادری اور بالخصوص شری راکھشش مودی کو حد سے زیادہ ناز تھا۔ جو فوٹیج آئی وہ ہندتوا برادری والوں نے یقین نہ آنے والی نظروں سے دیکھی ہو گی کہ ایک رافیل بھارت کی فضائوں ہی میں جائے پناہ ڈھونڈ رہا تھا لیکن پاک فضائیہ کے داغے گئے راکٹ نے اس کی چتا فضا ہی میں جلا ڈالی۔
راکھشش مودی خود کو رام بھگت کہتا ہے لیکن دراصل وہ مہاکالی کا بھگت ہے۔ کالی، کھوپڑیوں والی۔
گجرات میں مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے اس راکھشش نے پورے بھارت میں مسلمان ہونا گھور پاپ بنا دیا اور اب بہار کا الیکشن جیتنے کے لئے پاکستان پر چڑھائی کر دی۔ لیکن جو ہوا اس کے بعد کیا وہ بہار کا الیکشن جیت سکے گا۔؟
ارجن کھڑاگے نے راکھشش کو بے شرم قرار دیا اور ساتھ ہی اس راز سے پردہ اٹھایا کہ شری راکھشش کو پہلگام حملے کا تین دن پہلے ہی پتہ تھا اس لئے اس نے وہاں کا دورہ منسوخ کر دیا اور اس کے باوجود کہ اسے حملے کا پتہ تھا، تین دنوں میں اس نے لوگوں کے تحفظ کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔
ہر ملک کی طرح بھارت میں بھی اپوزیشن حکومت کیخلاف بیان بازی کرتی رہتی ہے لیکن اس سے پہلے کسی اپوزیشن لیڈر نے اپنے ملک کے وزیر اعظم کو ’’بے شرم‘‘ کا خطاب نہیں دیا۔ اتنا ٹھوک بجا کر بے شرمی کا خطاب دینے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کانگرس کو بدلتے عوامی موڈ کا اندازہ ہے اور وہ جانتی ہے کہ اس بار مودی راج گدی سے اترا تو دوبارہ کبھی نہیں آئے گا۔ نہ صرف وہ خود بلکہ اس کی بی جے پی بھی۔ چلئے، بہار کے الیکشن کا انتظار کرتے ہیں۔
راکھشش نے سچ پوچھئے تو بڑی غلطی کرلی۔ پاکستان نے جو کہا تھا وہی کیا اور پاکستان نے کہا تھا کہ بھارت نے حملہ کیا تو قرض فوری طور پر بھاری سود سمیت چکا دیں گے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ آدھے پون گھنٹے میں بھارتی غرور کس طرح چکنا چور ہوا۔ کیا راکھشش کو پاکستانی رد عمل کی شدت کا اندازہ نہیں تھا۔؟ بالکل تھا۔ اسے رپورٹیں مل رہی تھی کہ پاکستانی فضائیہ، بھارتی فضائیہ سے آدھی ہونے کے باوجود اس پر بھاری پڑے گی۔ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اس بار خلاف روایت، خلاف توقع، دنیا اس کے ساتھ نہیں ہے۔ تو پھر اس نے یہ حماقت کیوں کی۔؟
صاف نظر آتا ہے کہ راکھشش اپنی ہی تدبیر میں پھنس گیا۔ اس نے پہل گام واقعے کے بعد ردعمل کی آگ کو بھڑکایا اور اپنے خون آشام سنگ پریوار کی امیدیں اتنی زیادہ اونچی کر دیں کہ پھر کوئی چارہ نہ رہا، کوئی راستہ نہ بچا بجز اس کے کہ چڑھ جا سولی رام بھلی کرے گا۔
بھارت پر ایسی سفارتی تنہائی پہلے کبھی نہیں آئی۔ مودی کے 56 انچ چوڑے سینے اور 156 گز لمبی زبان بھی اس کے کچھ کام نہیں آئی۔ اس نے یہ سفارتی تنہائی دیکھی تو دیکھی، خود بھارتیوں کو بھی صاف نظر آئی۔ بھارت کے مشہور تھنک ٹینک اور مصنف دنیش ودھرا نے لکھا کہ بھارت سفارتی محاذ پر شکست کھا رہا ہے اور پاکستان کامیاب ہو رہا ہے۔ اس نے لکھا کہ آج پوری دنیا اسلام آباد کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے، بھارت ہر گزرتے دن کے ساتھ سفارتی طور پر کمزور نظر آ رہا ہے۔
شری راکھشش نے بھی یہ تبصرہ اور اس جیسے بہت سے دوسرے تبصرے ضرور پڑھے ہوں گے اور پڑھ کر 56 انچ کی چھاتی بھی پیٹی ہو گی۔
امریکہ، برطانیہ، یورپی برادری، مڈل ایسٹ، کہیں سے بھی بھارتی موقف کو درست مانا گیا نہ اس کی حمایت کی گئی لیکن بھارت کو یقین ہی نہ آیا جب روس نے بھی سرد مہری برتی اور اس سے بھی بڑھ کر بے یقینی تب ہوئی جب فرانس نے بھی کہ جو بھارت کا سٹرٹیجک اتحادی ہے، بھارت کا ساتھ نہ دیا۔ فرانس نے ہی نے بھارت کو جدید ترین جنگی طیارے رافیل دیئے تھے۔
بھارت کو ایران کے ردعمل پر بھی ’’شاک‘‘ لگا جس نے خلاف توقع غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ خبریں تو یہ بھی ہیں کہ بھارت نے ایران سے حمایت کر نے یا پھر کوئی راستہ نکالنے کی درخواست کی تو ایران نے کہا، ہم ثالثی کرانے کے لئے تیار ہیں۔ بھارت کا چاہ بہار منصوبہ پہلے ہی کھٹائی میں ہے۔
بھارت کی سفارتی تنہائی بڑھنے میں سب سے زیادہ کردار اس بات کا ہے کہ جب پاکستان نے پہلگام واقعے کی تحقیقات کی تجویز پیش کی اور کہا کہ ہم ان تحقیقات میں پورا تعاون کریں گے تو بھارت نے خاموشی اختیار کی۔
اس خاموشی کا مطلب دنیا نے یہی لیاکہ بھارتی دال میں کچھ کالا ہے اور پاکستان کی دال تگھری ہے۔
بھارت کے جذبات کو شرمناک ٹھیس تو تب لگی جب اس کے بنائے ہوئے بنگلہ دیش کے سابق آرمی چیف نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ بڑھ کر شمال مشرق کی ریاستوں پر قبضہ کرلے۔
یہ مطالبہ ’’عملی‘‘ نہیں تھا، محض بھارت کی بے عزتی کے لئے تھا۔ بھارت نے اس پر مڑ کر ضرور دیکھا ہوگا اور خود سے کہا ہوگا کہ ہائے رام، اتنی بے رجتی، شمال مشرق کی 7 ریاستوں کا قصہ اپنی جگہ الگ داستان ہے لیکن یہ کہانی پھر سہی۔