نام لئے بغیر دلی میں مقیم بھارت کے 20 سے زیادہ اخبار نویسوں کو ان کے خاندانوں سمیت جاننے کا دعویدار ہوں۔ ان میں سے چار صحافی ٹی وی سکرینوں کے جانے پہچانے چہرے ہونے کی وجہ سے اپنے یوٹیوب پلیٹ فارموں کے ذریعے بھی ’’ذہن سازی‘‘ کے دھندے میں مصروف رہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں ہوئی دہشت گردی کی واردات کے بعد مودی حکومت کو پاکستان کے خلاف ’’ہر ممکن محاذ‘‘ کھولنے کو اْکسارہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ناظرین کے حصول کے لئے غالباً یوٹیوب چینل کے میزبان کا دیوانگی سے مغلوب ہوا دِکھنا لازمی ہے۔ اس کی بدولت جنگی جنون کو ہوا دی جائے تو سکرین پر مزید رونق لگ جاتی ہے۔
سکرین کو پررونق رکھنے کی خواہش بھی لیکن تاریخ اور جغرافیہ پر مبنی حقائق بھول جانے کی گنجائش فراہم نہیں کرتی۔ فرض کریں آپ اینکر کا کردار نبھاتے ہوئے ایسی حماقت کا ارتکاب کریں تو آپ کے مہمانوں میں سے کسی ایک کو معاملات تاریخی اور جغرافیائی حقائق کے حوالے سے دکھانا ضروری ہوجاتا ہے۔
جن صحافی ’’دوستوں‘‘ کا ذکرہورہا ہے ان کے مہمان بھارتی فوج اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ ترین عہدوں پر ریٹائر ہوجانے کے باوجود مگر یہ فریضہ سرانجام دینے کی جرات نہیں دکھاتے۔ اینکر سے دو ہاتھ بڑھ کر دیوانہ ہوئے پھیپھڑوں کا زور لگانا شروع کردیتے ہیں۔
گزشتہ تین دنوں سے ایک بھارتی صحافی جنہیں میں بہتر اور معقول انسان گردانتا تھا مسلسل اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے اس خواہش کو دہرائے چلے جارہے ہیں کہ پہلگام پر ہوئے ’’حملے کا بدلہ‘‘ لینے کے لئے بھارت کو فی الفور بلوچستان میں مبینہ طور پر جاری ’’جنگ آزادی‘‘ کی حمایت کا اعلان کردینا چاہیے۔
اس امر پر زور دیتے ہوئے یاد یہ بھی دلایا جاتا ہے کہ 1970ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی بھارت نے بنگلہ دیش کے قیام کے لئے شروع ہوئی مہم میں بھی ایسا ہی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔
بنگلہ دیش کے قیام میں بھارتی ریاست کے کلیدی کردار کا ذکر کرتے ہوئے یہ حقیقت بھلا دی جاتی ہے کہ 2025ء کے بنگلہ دیش میں بھارت کے بارے میں عوام کے وسیع تر حلقے کیا محسوس کررہے ہیں۔
حال کو بھلاتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت بھی نظر انداز کردی جاتی ہے کہ جس ’’دو قومی نظریہ‘‘ کے ذکر نے دلی میں مقیم بھارتی صحافیوں کو مشتعل بنا رکھا ہے اس کا سیاسی طور پر سب سے پہلا اظہار اس خطے میں ’’تقسیم بنگال‘‘ کی وجہ سے ہوا تھا۔
برطانیہ سے آئے حکمرانوں نے بنگال، بہار اور اڑیسہ کے وسیع تر رقبوں پر مشتمل صوبہ بنگال کو مؤثر حکومتی بندوبست کی خاطر دو حصوں میں بانٹنا ضروری سمجھا۔ جب یہ تقسیم ہوئی تو آبادی کے حقائق کی بدولت منقسم ہوئے بنگال کا ایک بڑا حصہ ’’مسلم بنگال‘‘ کی صورت اختیار کرتا نظر آیا۔
ہندو انتہا پسند اس کے خلاف غصے سے مغلوب ہو کر دہشت گردی کو راغب ہوگئے۔ ان کے جنون سے گھبرا کر سامراجی حکمرانوں نے تقسیم بنگال کا فیصلہ واپس لے لیا۔
اس فیصلے کی واپسی نے مسلمانوں کو سیاسی اعتبار سے اپنی جداگانہ حیثیت اجاگر کرنے کو مجبور کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کا تاسیسی کنونشن ’’مسلم بنگال‘‘ کے مرکزی شہر ڈھاکا ہی میں ہوا تھا۔
تاریخ کی چند کتابیں غور سے پڑھنے کے بعد میں یہ دعویٰ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کی فوجی مداخلت نے یقینا کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اسے مگر کامیابی ہرگز نصیب نہ ہوتی اگر پاکستان کی عسکری اور نوکرشاہی پر مبنی اشرافیہ 1950ء کی دہائی سے پاکستان کو ’’مضبوط مرکز‘‘ کے تحت چلانے کو بضد نہ رہتی۔
’’دو قومی نظریہ‘‘ کا حقیقی خالق اور وارث ’’مسلم بنگال‘‘ تھا۔ ہم مگر مشرقی پاکستان میں آباد بنگالیوں کی تحقیر میں مصروف رہے۔ انہیں بنگالی زبان سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ان کی ثقافت میں ’’ہندو اثرات کے خاتمے‘‘ کی حماقت میں مبتلا رہے۔
تاریخ میں الجھ گئے تو بلوچستان کا ذکر نہیں ہوپائے گا۔ مودی حکومت کو بلوچستان میں مبینہ طور پر جاری ’’جنگ آزادی‘‘ کا کھل کر ساتھ دینے کا مشورہ دینے والے طیش کے عالم میں یہ حقیقت فراموش کر چکے ہیں کہ بلوچستان سابقہ مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش کی طرح یکجہتی شناخت کا حامل نہیں۔
اس کی آبادی کا بیشتر حصہ اب پشتو بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ بلوچ کئی قبائل میں تقسیم ہیں۔ ’’سرداری نظام‘‘ کی بقاء یہ تقسیم برقرار رکھنے میں ہے۔ اس کے علاوہ ساحلی مکران پر آباد بلوچ ہیں جو اپنے مسائل کو انتہائی مختلف نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بلوچ اور براہوی تقسیم بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
مودی سرکار کو بلوچستان میں مبینہ طور پر جاری ’’جنگ آزادی‘‘ کا کھل کر ساتھ دینے کو اْکسانے والے گفتار کے غازی یہ حقیقت بھی فراموش کر چکے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے ’’بلوچ شناخت‘‘ کو ہر صورت دبائے رکھنے کا رحجان درحقیقت ایرانی شہنشاہیت کے اولین ادوار ہی میں شروع ہوگیا تھا۔
اسی ورثے کی وجہ ہی سے 1970ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں واحد اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری نیشنل عوامی پارٹی کو پاکستان دولخت ہوجانے کے باوجود شہنشاہ ایران اس کا جمہوری حق دینے سے خار کھاتا تھا۔ بھٹو حکومت کو اسے رام کرنے کے لئے سوجتن کرنا پڑے۔
بھارت خود کو ایران کا دوست قرار دیتا ہے۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود اس سے سستا تیل خریدتا رہا ہے۔ بلوچستان کے ساحل کے قریب بندرگاہوں میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندے بھی پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کرتے رہے۔
ان دنوں مگر بھارت خود کو امریکہ کا دوست گردانتا ہے۔ اسی باعث اسرائیل بھی بہت قریب آچکا ہے۔ ’’آزاد بلوچستان‘‘ کی حمایت مگر اسے ایران کی دوستی سے محروم کردے گی۔
ایران کے علاوہ ایک ملک عوامی جمہوریہ چین بھی ہے۔ بھارت خود کو اس کے برابر کی اقتصادی و عسکری قوت ثابت کرنے کو بے چین ہے۔ ہنوز اگرچہ دلی دور است والا معاملہ نظر آتا ہے۔
لداخ میں چین اور بھارت کے مابین سرحد طے شدہ نہیں بلکہ متنازعہ ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ملک کئی بار جنگ کی جانب بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ لداخ میں اپنی ’’سرحد‘‘ تسلیم کروائے بغیر بھارت اگر بلوچستان کو بھی ’’آزاد ملک‘‘ میں بدلنے کی خواہش میں مبتلا ہوگیا تو اسے ہمارے ساحلی علاقوں میں چین کی بھرپور مخالفت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔
یہ مخالفت فقط سفارت کاری تک محدود رہنے کے بجائے بحری قوت کے جارحانہ اظہار کی صورت بھی اختیار کرسکتی ہے اور بھارتی نیوی چین کی بحری طاقت کے مقابلے میں اپنی کم تر حیثیت کی حامل ہے۔
پاکستان کو پہلگام واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرا کر سزا دینا مقصود ہے تو عقل تقاضہ کرتی ہے اسے ایران اور چین جیسے دوستوں سے محروم نہ کیا جائے۔ بلوچستان میں مبینہ طور پر جاری ’’جنگ آزادی‘‘ کا کھل کر ساتھ دینے کو اْکسانے والے بھارتی صحافی مگر طیش سے مغلوب ہوئے ان حقائق کو بھلا چکے ہیں جو دفاعی حکمت عملی کی بنیاد تصور ہوتے ہیں۔