انڈیا کے ایک منہ زور اینکر اپنے تند وتیز سوالات کی شہرت رکھتے ہیں۔ دعویٰ ان کا یہ ہوتا ہے کہ ان کے پروگرام کا بنیادی مقصد سچائی کی تلاش ہے۔ گزشتہ ہفتے اس اینکر نے ایک سنجیدہ مزاج صاحبِ علم پاکستانی سے لائیو سوال کیا کہ اگر بھارت پاکستان پر حملہ کر دیتا ہے تو کیا پاکستان نیو کلیئر آپشن استعمال کرے گا یا نہیں؟ پاکستانی مہمان نے جواباً اینکر ہی سے پوچھا کہ اگر کوئی ملک ایک ایٹمی قوت کے 25 کروڑ عوام کو بھوکا پیاسا مارنے پر تُل جائے تو پھر تمہی بتاؤ کہ یہ ملک کیا کرے گا؟
انڈین اینکر کرن تھاپر کو یہ جواب عمران خان حکومت کے قومی سلامتی کے ایک سابق مشیر نے دیا تھا۔ 22 اپریل کو پہلگام میں دہشت گردی کی ایک کارروائی کے بعد انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتی میڈیا نے اپنی توپوں کے رُخ پاکستان کی طرف موڑ دیے تو جنوب مشرقی ایشیا پر جنگ کے بادل اُمڈتے نظر آنے لگے۔ پھر نریندر مودی اور اس کی حکومت کمٹمنٹ ٹریپ میں پھنس گئی۔ اتنے بلند بانگ دعوؤں کے بعد اگر وہ کچھ نہیں کرتی تو اپنے لوگوں کو منہ کیسے دکھائے گی اور اگر جنگ شروع کر دیتی ہے تو اسکا انجام کتنا بھیانک ہو سکتا ہے‘ اس کا تو دھمکیاں دینے سے پہلے مودی سرکار نے سوچا تھا اور نہ ہی بھارتی میڈیا نے۔
انڈیا کو فرانس سے حاصل کردہ رافیل جنگی طیاروں پر بہت ناز تھا۔ بھارتی حکومت کا خیال تھا کہ میزائلوں سے لیس اس طیارے سے پاکستان کے اندر تباہ کن حملہ کیا جا سکتا ہے۔ مگرگزشتہ ہفتے جب انبالہ سے اُڑ کر آنیوالے چار رافیل طیارے پاکستان کے بارڈر کے قریب پہنچے تو پاکستان ایئر فورس نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انڈین ایئر فورس کے رافیل طیاروں کے سینسر‘ کمیونیکیشن اور ریڈار سسٹم کو جام کر دیا۔ اس غیر متوقع جوابی کارروائی کے بعد چاروں جہازوں کو سری نگر ایئر پورٹ پر ایمرجنسی لینڈنگ کرنا پڑی۔ پاکستان کی فوج تعداد میں اور جنگی سازو سامان کے لحاظ سے بھارت سے پیچھے ہے مگر اپنے جذبۂ شہادت اور مہارت کے اعتبار سے بھارت پر برتری رکھتی ہے۔ مودی سمجھے یا نہ سمجھے مگر پاکستانی برتری کو بھارتی جرنیل خوب جانتے ہیں۔
عالمی سفارتی محاذ پر بھی بھارت کو شدید خفت اٹھانا پڑی۔ بھارت کا خیال تھا کہ امریکہ چین کشیدگی کی بنا پر امریکہ اس کا کھل کر ساتھ دے گا مگر امریکہ نے بھارت اور پاکستان کو یہی مشورہ دیا کہ وہ اپنے معاملات باہمی مذاکرات سے حل کریں۔ دو ایٹمی قوتوں کے ٹکرانے سے خطے میں سوائے تباہی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ روس نے بھی پہلے کی طرح بھارت کی علی الاعلان یا در پردہ مدد کے بجائے اسے تحمل سے کام لینے اور مسائل ومعاملات باہمی گفت وشنید سے حل کرنے کی تجویز دی۔ اس دوران کئی دوست ممالک بھی جنوبی ایشیا کی دو نیو کلیئر پاورز کے ٹکراؤ کو رکوانے کیلئے متحرک ہو گئے ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اسلام آباد میں پاکستانی قیادت سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی طرح کے شدید ردعمل سے گریز کرے۔ پاکستانی قیادت نے برادر ملک کے وزیر خارجہ کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان جنگ کے شعلے بھڑکانے میں پہل نہیں کرے گا۔ نیز وہ پہلگام کے واقعے کی کسی بھی غیر جانبدار عالمی فورم سے تحقیقات کیلئے تیار ہے۔ اسی طرح خلیج تعاون کونسل نے جموں وکشمیر کے مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنے کیلئے کوششیں تیز کرنے اور ہندوستان اور پاکستان کو بلاتاخیر باہمی مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ کئی دیگر دوست ممالک اور بعض اہم شخصیات بھی پس پردہ پاک بھارت کشیدگی کو کم کرانے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہوں گی۔
دنیا ایک بار پھر اس حقیقت کا ادراک کر چکی ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی میز پر سب سے پرانا مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کے پُرامن حل کے ساتھ ہی نہ صرف خطے کا بلکہ عالمی امن وابستہ ہے۔ پاکستان اور بھارت ایٹمی قوتیں ہیں۔ اگر دونوں ملکوں میں سے کسی ایک نے بھی کسی جذباتی لمحے میں ایٹمی بم کے بٹن پر انگلی رکھ دی تو آنِ واحد میں خطے میں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ جل کر راکھ ہو جائیں گے اور اسی اندازے کے مطابق کم از کم دس کروڑ افراد زخمی ہوں گے اور علاقے میں جو زہریلے ایٹمی اثرات پھیلیں گے‘ وہ کئی دہائیوں میں بھی دور نہیں ہو سکیں گے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت کو پاکستان کے بارے میں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنی پالیسی ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ روایتی برّی وفضائی اور بحری جنگوں کے حالات بھی بدل چکے ہیں۔ جب دو پڑوسی ملک ایٹمی قوت بن جائیں تو پھر انہیں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقینا اسی ادراک کی بنا پر مئی 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس حقیقت کا ادراک اس کی روح کے مطابق کر لیا اور وہ فروری 1999ء میں امن بس کے ذریعے لاہور آئے۔ انہوں نے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف سے مذاکرات کیے اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام دوطرفہ معاملات وتنازعات کو باہمی بات چیت سے حل کرنے کا معاہدہ کیا اور اس پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے مابین 21 فروری 1999ء کو طے پایا تھا۔ واجپائی امن کیساتھ اپنی کمٹمنٹ کی صداقت ثابت کرنے کیلئے لاہور میں مینارِ پاکستان بھی گئے تھے۔ واجپائی کی یہ نظم ان دنوں بہت مشہور ہوئی‘ جس کے چند اشعار ہم پیش کر رہے ہیں: ہم جنگ نہ ہونے دیں گے؍ وشو شانتی کے ہم سادھک ہیں جنگ نہ ہونے دیں گے؍ کبھی نہ کھیتوں میں خونی کھاد پھلے گی؍ کھلیانوں میں نہیں موت کی فصل کھلے گی؍ آسمان پھر کبھی نہ انگارے اُگلے گا؍ ایٹم سے ناگاساکی پھر نہیں جلے گا؍ ہری بھری دھرتی کو خونیں رنگ نہ لینے دیں گے؍ جنگ نہ ہونے دیں گے
بی جے پی کے ہی ایک سابق وزیراعظم کی کمٹمنٹ تھی کہ جنگ نہ ہونے دیں گے اور آج کا بھارتی وزیراعظم جنگ سے اپنی کمٹمنٹ پر فخر کر رہا ہے۔ نریندر مودی کمٹمنٹ ٹریپ سے باہر آئے اور صدقِ دل سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ بھارتی وزیراعظم کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنے تضادات کے خول سے باہر نکلنا ہے۔ ایک طرف بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننا چاہتا ہے دوسری طرف وہ اپنے ہی پڑوسیوں کے ساتھ لڑ جھگڑ رہا ہے اور انہیں جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اَکھنڈ بھارت کا پاکھنڈ بھی اس نے پالا ہوا ہے۔ بھارتی وزیراعظم جتنا جلدی یہ ادراک کر لیں کہ وہ اپنے ایٹمی پڑوسی سے روایتی جنگ بھی نہیں جیت سکتے‘ اتنا ہی ان کیلئے اچھا ہے۔ اس لیے پائیدار امن کیلئے بھارت کو بلاتاخیر مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کر لینا چاہیے۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی میں بھارتی فوج ڈیڑھ لاکھ سے اوپر کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے اور آج بھی اُن پر مظالم ڈھانے کیلئے کشمیر میں سات لاکھ سے زائد بھارتی فوجی موجود ہیں۔ آٹھ دس روز کی جنگی دھمکیوں کے بعد اب بظاہر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ بھارتی حکومت کا جنگی ٹمپریچر کچھ نیچے آیا ہے۔ اسی طرح بھارتی میڈیا‘ کہ جس نے پہلگام کارروائی کے فوراً بعد بغیر کسی ثبوت کے کئی روز تک مسلسل واویلا کیا‘ اب اسے بھی کچھ قرار آ گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے برعکس پاکستانی میڈیا نے پہلے روز سے نہایت سنجیدگی اور متانت کا ثبوت دیا اور جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے آگ بجھانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف پاکستانی قائدین کو رب ذوالجلال کے حضور سجدۂ شکر ادا کرنا چاہیے کہ بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ تاہم اب پاکستان کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنا سیاسی ومعاشی استحکام ہے۔ حکمران بلاتاخیر عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کو رہا کریں تاکہ ملک کے اندر اور باہر یہ پیغام جائے کہ جنگ ہو یا امن‘ ہم ایک ہیں۔ اگرچہ جنگ کے بادل چھٹتے دکھائی دے رہے ہیں مگر خطرہ ابھی ٹلا نہیں اس لیے ہمیں قومی اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔