اقتصادی تعاون تنظیم اور خطے کی ترقی

ای سی او کا ایک اہم ادارہ اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ بینک (ای ٹی ڈی بی) ہے ،جسے 2005 میں اقتصادی تعاون تنظیمکے تین بانی ارکان اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور جمہوریہ ترکیہ نے قائم کیا
اس مضمون کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے ایران میں اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جہاں خطے کی سلامتی کو اسرائیل کی جانب سے لاحق خطرات کی جانب توجہ دلائی وہاں ان کی گفتگو کا بڑا حصہ ای سی او کے معاہدوں پر عملدرآمد میں تاخیر اور اقتصادی تعاون کے منصوبوں کے متعلق سست طرزعمل سے متعلق رہا

۔یاد رہے ای سی او سے پہلے پاکستان، ترکی اور ایران میں آر سی ڈی کے نام سے ایک تنظیمی تعاون موجود تھا جسے خطے کے دیگر ممالک تک پھیلا کر اسے ای سی او کا نام دیدیا گیا۔ اقتصادی تعاون تنظیم کا مقصد یوریشیا میں اقتصادی ترقی اور تجارت کو فروغ دینا ہے۔ اس کی بنیاد 1985 میں ایران، پاکستان اور ترکی نے رکھی تھی اور اس کا صدر دفتر تہران میں ہے۔

تنظیم کے رکن ممالک میں یورپ، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ممالک شامل ہیں۔ ای سی او انٹرا ریجنل تجارت صرف 76.5 بلین ڈالر یا مجموعی بیرونی تجارت کا 8.2 فیصد ہے۔ای سی او کے رکن ممالک سے پاکستان کی اپنی تجارت صرف 3 فیصد ہے۔

اس کی کل غیر ملکی تجارت کا یہ بہت کم حصہ ہے۔ یہ اعداد و شمار انٹرا ریجنل تجارت کی حقیقی صلاحیت سے کافی کم ہیں۔دنیا کی مجموعی آبادی میں خطے کے حصہ اور اس کی وسیع دولت کو مدنظر رکھتے ہوئے تجارت،انسانی اور قدرتی وسائل کو باہمی تعاون سے کہیں زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے۔

علاقائی تجارت کو بہتر بنانے کے لیے ای سی او تجارتی معاہدہ (ای سی او ٹی اے) جولائی 2003 میں اسلام آباد میں دستخط کیا گیا تھا،اپریل 2008 میں اس پر عملدرآمد ہونا تھا جو نہیں ہو سکا۔ اب تک پاکستان، ایران، ترکی، افغانستان اور تاجکستان نے معاہدے کی توثیق کی ہے

پاکستان اس کی موجودہ شکل کے بارے میں اور آیا معاہدے کا ترمیم شدہ ورژن ہونا چاہیییا پھرموجودہ معاہدے کو تبدیل کرنے کے لیے پیش قدمی کی ضرورت پر فکر مندی کا اظہار کرتا آیا ہے۔پاکستان ECOTA کی حمایت کرتا رہا ہے اور اس کے آپریشنل ہونے کو برقرار رکھنا چاہتاہے۔

پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ تجارتی لبرلائزیشن کے ہدف کی طرف پیش رفت کو تیز کرے گا ۔ای سی او اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ایک ایڈہاک تنظیم ہے۔

اس کا مقصد یورپی یونین کی طرح اشیا اور خدمات کے لیے ایک ہی منڈی قائم کرنا ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد، ای سی او نے 1992 میں افغانستان، آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو شامل کرنے کے لیے توسیع کی۔ای سی او کا موجودہ فریم ورک خود کو زیادہ تر انفرادی اور مکمل خودمختار رکن ممالک کے درمیان دو طرفہ معاہدوں اور ثالثی کے طریقہ کار کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ یہ فریم ورک ای سی او کو آسیان کی طرح بناتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے اپنے دفاتر اور بیوروکریسی خودمختار رکن ممالک کے درمیان تجارت کے نفاذ کے لیے موجود ہے

2017 میں، ترکی اور ایران کے درمیان ایک آزاد تجارتی معاہدے پر مستقبل میں دستخط کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، پاکستان ترکی آزاد تجارتی معاہدے کے علاوہ، افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ افغانستان اور پاکستان دونوں کے راستے وسطی ایشیا کے لیے سامان اور خدمات کی تجارت کو آسان بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

یہ اشک آباد کے معاہدے کے علاوہ ہے، جو وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان ایک کثیر المثال نقل و حمل کا معاہدہ ہے۔ اراکین کے درمیان مزید تعاون کا منصوبہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے ساتھ ساتھ ترکمانستان-افغانستان-پاکستان پائپ لائن کی شکل میں ہے۔

موجودہ پائپ لائنوں میں منصوبہ بند فارسی پائپ لائن کے علاوہ تبریز-انقرہ پائپ لائن بھی شامل ہے۔ یہ وسطی ایشیائی ریاستوں جیسے کہ قازقستان اور ترکمانستان سے تیل اور گیس کی نقل و حمل کے علاوہ ہے تاکہ ایران، پاکستان، ترکی اور اس سے آگے صنعتوں تک پہنچایا جا سکے۔

پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے تیل اور گیس کی سپلائی کے اپنے ذرائع کو متنوع بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں آذربائیجان کے ساتھ پیٹرولیم درآمدی معاہدے بھی شامل ہیں۔ ای سی او کے تمام رکن ممالک کی حکومتوں نے ای سی او کنسلٹنسی اینڈ انجینئرنگ کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ، یا ای سی او سی ای سی کی شکل میں مرکزی وسائل کا ایک پول قائم کیا ہے تاکہ ای سی او کے رکن ممالک یا اس کی تجارت کے ذریعے سپانسر کیے گئے ترقیاتی منصوبوں میں مدد کی جا سکے۔

ای سی او کا ایک اہم ادارہ اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ بینک (ای ٹی ڈی بی) ہے ،جسے 2005 میں اقتصادی تعاون تنظیمکے تین بانی ارکان اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور جمہوریہ ترکیہ نے قائم کیا ۔بینک نے 2008 میں کامیابی کے ساتھ اپنا کام شروع کیا ۔ اس کا صدر دفتر استنبول (ترکی) میں ہے اور نمائندہ دفاتر کراچی (پاکستان) اور تہران (ایران) میں ہیں۔ بینک کا بنیادی مقصد رکن ممالک میں منصوبوں اور پروگراموں کے لیے مالی وسائل فراہم کرنا ہے۔ بینک درمیانی سے طویل مدتی مصنوعات کی ایک رینج پیش کرتا ہے جیسے کہ پراجیکٹ فنانس، کارپوریٹ فنانس، تجارتی مالیات اور قرضے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو براہ راست یا مالی ثالثوں کے ذریعے نجی اور سرکاری اداروں کو فراہم کرتا ہے۔ای سی او کے رکن ممالک کی استعداد اور اس کے ماتحت اداروں کو پیش نظر رکھیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ ای سی او ممالک ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں،

مسئلہ یہ آ رہا ہے کہ پہلے سارک اور اب شنگھائی تعاون تنظیم جیسے بڑے پلیٹ فارم ای سی او کو غیر موثر بنا رہے ہیں۔جناب اسحاق ڈار اگر تمام علاقائی تنظیموں میں پاکستان کے الگ الگ کردار و مفادات کو اجاگر کرسکیں تو پاکستان سہولت کے ساتھ اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔

تجویز کردہ مضامین:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے