ایران کی دو یونیورسٹیوں میں تقاریر

مسلمان ممالک تاریخی اور سیاسی وابستگیوں کے باعث اسرائیلی جارحیت کے خلاف متحد نہیں ہو سکتے، اور ان کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کا واحد راستہ ڈی-8 جیسے اداروں کو فعال بنانا ہے۔
اس مضمون کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔

یونیورسٹی آف بین الملی امام رضا علیہ الرحمت، ایران کے انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم کا مجھ سے یہ سوال بہت جاندار اور عہدِ حاضر کے امور کو سمجھنے کی غرض سے بروقت تھا کہ:

"جب تمام مسلمان ممالک کے عوام کم از کم اسرائیل سے ناراض ہیں اور کچھ ممالک تو فوجی خطرہ بھی محسوس کرتے ہیں، تو پھر مسلم ممالک اسرائیلی جارحیت کے آگے بند باندھنے کے لیے مشترکہ طور پر پھاوڑے، کلہاڑے کیوں نہیں اٹھا لیتے؟”

میں اس یونیورسٹی کی دعوت پر انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ کو مسلم ممالک کے باہمی خارجہ امور پر لیکچر دینے کے لیے مدعو تھا۔
اسرائیل گزشتہ صدی سے مسلم ممالک، خصوصاً عرب ممالک کے لیے مستقل طور پر ایک دردِ سر بنا ہوا ہے، اور حالیہ دور میں تو وہ نہتے عوام کے حوالے سے ہلاکو خان کی تاریخ کو دہرانے میں مصروف ہے۔

پھر یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ممالک اتنے بے دست و پا کیوں ہیں اور ان کی حکمتِ عملی اتنی بے عملی پر مشتمل کیوں ہے؟

طلبہ کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ ہمیں اس معاملے کو سمجھنا چاہیے کہ گزشتہ صدی میں درحقیقت یہ تمام مسلمان ممالک یا تو نوآبادیاتی دور کے شکنجے سے آزاد ہوئے یا سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کرکے بڑی طاقتوں نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کو وجود بخشا۔

اب اس صورتحال میں دو طرح کے مسلمان ممالک ہمارے سامنے آتے ہیں:

  1. وہ جنہوں نے سیاسی یا مسلح جدوجہد کے ذریعے آزادی کو ممکن بنایا؛

  2. اور وہ ممالک جن کو سلطنت عثمانیہ کے بعد آزاد ممالک بنا دیا گیا۔

اب جن ممالک کو سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کی وجہ سے آزادی ملی، ان کو یہ آزادی کسی خدا ترسی میں نہیں دی گئی تھی، بلکہ اس کے ذریعے عرب دنیا کو بالخصوص اور تمام مسلمان ممالک کو بالعموم کنٹرول کرنے کا جذبہ شامل تھا۔

اگر ہم غور کریں تو اس کنٹرول کرنے کے مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے اس زمانے میں ہی اسرائیل کو بھی قائم کروا دیا گیا۔

اب جن ممالک کی آزادی ہی اس گریٹ گیم کی محتاج ہو، تو ان کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس گیم سے باہر جا کر کوئی قدم اٹھا سکیں؟

ایسا نہیں ہے کہ وہاں کی موجودہ قیادت اس صورتحال کو سمجھتی نہیں، بلکہ جب عرب سفارتکاروں سے ملاقات ہوتی ہے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس صورتحال کو بدلنا چاہتے ہیں، مگر کوئی راستہ ان کو سجھائی نہیں دے رہا۔

اب اگلا سوال یہ تھا کہ اس صورتحال کا مداوا کیا ہے؟

کسی کشمکش سے محفوظ رہتے ہوئے، ان تنظیموں کو مزید فعال کرنا چاہیے جو مسلمان ممالک پہلے سے قائم کر چکے ہیں۔

میں نے مزید عرض کی کہ اس سلسلے میں ڈی ایٹ تنظیم کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے، اور اس میں فوری طور پر سعودی عرب کو شامل کرنا چاہیے۔
اس تنظیم کی حیثیت صرف اقتصادی معاملات تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ اس کو اپنا سیاسی کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔

میں او آئی سی کی اس لیے بات نہیں کر رہا کہ وہ اتنے طویل عرصے سے قائم ہونے کے باوجود کوئی قابلِ ذکر کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔
اسی سبب سے مسلم عوام کے ذہنوں میں اس کا تصور ایک کمزور تنظیم کے طور پر راسخ ہو چکا ہے، اور اب اس تصور کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہے۔

پروفیسر داؤدی نے پاکستان اور ایران کے تعلقات کی نوعیت پر سوال کیا۔
میں نے عرض کی کہ تعلقات تو ٹھیک ہیں مگر یہ ٹھیک تعلقات ہمسائیگی کی نسبت سے ہیں، اور دونوں ممالک کے اسٹیکس ایک دوسرے میں ہم قائم نہیں کر سکے ہیں۔

اب مزید بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے کہ دونوں ممالک کے فوجی افسران کی تعیناتیاں ایک دوسرے کے ہاں ہوئی ہیں۔
دہشت گردوں کو بھی ایک دوسرے کے حوالے کیا گیا ہے، مگر جب تک اسٹیکس مستقل طور پر نہیں وجود پاتے، اس وقت تک تعلقات بس موجودہ سطح تک ہی رہیں گے۔

باقر العلوم یونیورسٹی ایران میں ’’مشرق میں انسانی حقوق کا تصور‘‘ کے موضوع پر ایک کانفرنس تھی۔
اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مغرب جو اس وقت انسانی حقوق کا چیمپئن بنا ہوا ہے، اس کے نزدیک انسانی حقوق کیا ہیں؟

بات واضح ہے کہ مغرب نے انسانی حقوق کا تصور اپنی ثقافتی و سماجی زندگی اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے تراشا ہے، اور وہ صرف اپنے طے شدہ پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے ہی انسانی حقوق پر بات کرتا ہے۔
کیونکہ اسی سے اس کی ثقافتی یلغار کو محفوظ مورچہ میسر آتا ہے۔

تاہم جب ہم مشرق میں انسانی حقوق کا تصور پیش کریں تو ہمیں مغرب والی غلطی نہیں دہرانا چاہیے، کہ ہم اپنے تصورات کو مسلط کرنے کو ہی انسانی حقوق تصور کریں۔

اس کانفرنس میں گرم موضوع غزہ ہی تھا اور اس میں پاکستان کا بھی ذکر ہوا۔

فلسطینی اور لبنانی مقررین نے اپنی تقاریر اور بعد میں مجھ سے بالمشافہ گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے خاص طور پر بات کی۔

فلسطینی نے کہا کہ:
"پاکستان ہمارے ساتھ کھڑا ہے، مگر ہمیں پاکستان سے مزید توقعات ہیں۔”

میں نے پوچھا کہ آپ کو کیا مزید توقعات ہیں؟
تو انہوں نے کہا کہ:
"پاکستان اگر ہمارے لوگوں کو بلا کر پاکستانی دفتر خارجہ میں ملاقات، بریفنگ کا انتظام کرے، تو اس اقدام کا ہی غیر معمولی اثر قائم ہو جائے گا۔”

لبنانی نے کہا کہ:
"پاکستان ایک بہت بڑا ملک ہے، ایٹمی طاقت ہے، اس کے علاقائی سیاست کی بدولت چین سے بھی گہرے مراسم ہیں۔
اگر پاکستان اس پر کوئی گروپ قائم کرے، وزیر خارجہ اس پر بات کریں کہ اسرائیل لبنان تک میں گھس گیا ہے، تو دنیا اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتی ہے – اور اس دنیا میں امریکہ بھی شامل ہے۔”

تجویز کردہ مضامین:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے