ایس سی او: تاریخی لمحہ
پاکستان میں 1974اور 1997میں اسلامی سربراہی کانفرنسز جبکہ سارک اور ای سی او کی کانفرنسز ہو چکی ہیں مگر اس سے قبل مسلم اور غیر مسلم ممالک کی اتنی بڑی کانفرنس کا انعقاد نہیں ہوا تھا اور اس کے ذریعے پاکستان کی مثبت تصویر دنیا بھر میں پیش کی جا سکتی ہے تاہم اس وقت اگر ہم عالمی میڈیا پر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوگا کہ توجہ کچھ کم ہے۔
وزارت خارجہ و اطلاعات کی اس حوالے سے کیا حکمت عملی ہے اور یہ توجہ کم کیوں محسوس ہو رہی ہے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ایس سی او کانفرنس کے انعقاد پر دو پہلوؤں سے غور کیا جا سکتا ہے۔ اول تو ایس سی او تنظیم کا اپنا ایک ایجنڈہ اور چارٹر موجود ہے جس کے تحت ہی اس کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ریجنل اینٹی ٹیررسٹ اسٹرکچر سے لے کر معاشی تعاون تک اس کے مقاصد میں شامل ہیں۔
دنیا بھر میں موجود بڑے اتحاد یا تنظیمیں جیسے جی سیون، جی ٹونٹی، کواڈ، نیٹو کی مانند ہی ایس سی او ہے۔
یوریشیا کا تو پینسٹھ فیصد رقبہ جبکہ دنیا کی چالیس فیصد سے زائد آبادی اس تنظیم کے رکن ممالک میں آباد ہے۔
مگر جہاں اس کی اہمیت مسلمہ ہے وہیں پر پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات کی بنا پر اس میں ایک ضعف بھی پایا جاتا ہے۔ پاکستان کیلئے ایس سی او اجلاس اور اس کے مقاصد کے ساتھ ساتھ ایک اور موقع بھی ميسر آ گیا ہے کہ انڈیا کے علاوہ ان تمام ممالک کے وزرائے اعظم، نائب صدر سے پاکستانی قیادت کی علیحدہ علیحدہ بھی ملاقاتیں ہونگی۔
چین نے تو وزیر اعظم لی چیانگ کے دورے کو باضابطہ طور پر دو طرفہ دورہ بھی قرار دے دیا ہے اور اسی وجہ سے وزیر اعظم لی چیانگ نے اپنی آمد کے روز ہی اس نوعیت کی اپنی سرگرمیاں طے کر رکھی تھیں کہ جن سے یہ پیغام واضح طور پر ساری دنیا کو پہنچ جائے کہ وزیر اعظم چین صرف ایس سی او کانفرنس میں شرکت کی غرض سے نہیں آئے بلکہ یہ بتانے بھی آئے ہیں کہ پاکستان اور چین کے باہمی روابط روز بروز مزید مضبوط سے مضبوط ترہوتے جا رہے ہیں اور کسی بھی نوعیت کی دہشت گردی ہمارے تعلقات کو خراب اور مقاصد سے دور نہیں کر سکتی۔
سی پیک کے تحت گوادر پر 7ویں جوائنٹ ورکنگ گروپ کے اجلاس کے نکات کی دستاویزات ایک دوسرے کے حوالے کی گئی ہیں۔
سی پیک کا مستقبل تابناک ہے اور یہ تابناک مستقبل کوہ قراقرم موٹر وے کی تعمیر سے مزید جلد ہو گا ایم 8پر بھی اسی لئے بات ہوئی ہے کہ اس کی تعمیر کے بنا چین سے اتنے بڑے پیمانے پر سامان لانا ممکن نہیں۔
اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے گوادر ایئر پورٹ کا ورچوئل افتتاح کیا، گوادر ایئر پورٹ کا افتتاح مطلب گوادر بندر گاہ کا اہم سنگ میل عبور۔ پاکستان اور چین نے بہت سارے معاشی معاملات پر دستاویزات، مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ کیا ہے۔
مشترکہ لیبارٹریوں کے قیام سے لے کر اسمارٹ کلاس رومز تک، غذائی تحفظ کا شعبہ، انسانی وسائل کی ترقی، اطلاعات اور مواصلات کے شعبے سب میں باہمی تعاون پر اتفاق کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین کاروباری شراکت کے وسیع مواقع موجود ہیں اور ان مواقعوں کو آسان کرنے کی غرض سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور پیپلز بینک آف چائنہ کے درمیان کرنسی کے تبادلے کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت کا تبادلہ کیا گیا ہے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ پاکستان کی وزیر اعظم چین سے آئی پی پیز کے امور، چشمہ نیوکلیئر پلانٹ، اکنامک زونز اور مزید سرمایہ کاری پر بھی گفتگو ہوئی ہے۔ پاکستان کی چین سے معاشی شراکت داری کے ساتھ ساتھ تزویراتی شراکت داری بھی مسلمہ ہے اور پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ وہ جے ایف 35طیارے چین سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے جبکہ بحریہ کیلئے مزید سب میرينز کا آرڈر کرنا بھی پاکستان کے ساحلوں کی حفاظت کیلئے ناگزیر ہے۔
روسی وزیر اعظم کی آمد بھی بہت اہم ہے۔
پاکستان میں ابھی کچھ عرصہ قبل ہی روس کے نائب وزیر اعظم بھی آئے تھے۔ پھر حال ہی میں دونوں ممالک کے مابین بارٹر ٹریڈ کا معاہدہ ہوا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے 1999میں پچيس سال بعد کسی پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ روس سے جو جمود توڑا تھا اس کا ہی ثمر تھا کہ ان کے تیسرے دور حکومت میں 2015میں روس سے پاکستان نے چار ایم آئی 35ہیلی کاپٹرز خریدنے کا معاہدہ کیا تھا اور اب وزیر اعظم شہباز شریف کے دور میں روس سے مزید ہیلی کاپٹرز حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے پھر روس کی پاکستان اسٹیل ملز کو بحال کرنے یا نئی مل لگانے میں بھی ایک دلچسپی دیکھنے کو مل رہی ہے
۔ 2023میں صدر آصف زرداری نے تاجکستان کے پانی سے بلوچستان کو سیراب کرنے کا تصور پیش کیا تھا جبکہ کاسا 1000توانائی پاکستان تک لانے کا اہم منصوبہ ہے اور یہ سب وسط ایشیائی ریاستوں سے منسلک ہے کہ جن کے وزرائے اعظم ایس سی او کانفرنس میں شرکت کیلئے موجود ہیں۔
ایران سے تو ہم بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بجلی حاصل کر ہی رہے ہیں اور غزہ کے حوالے سے ہمارا اور ایران کا مؤقف بھی یکساں ہے۔ ایرانی نائب صدر کی موجودہ حالات میں آمد اور پاکستانی حکام سے علیحدہ گفتگو بہت اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ اگر غزہ یوں ہی جلتا رہا تو آگ دنیا بھر میں پھیل سکتی ہے۔