انسانی تخیل بھی عجیب ہے۔ اپنے تصورات کو حقیقت کا روپ دے دیناتو اس کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ بعض اوقات اس کے تصورات کسی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ بھی ضروری نہیں ہوتا۔
راقم نے اب سے کم وبیش تیس برس قبل جب پہلی بار دانشگاہ تہران میں ’’شاہنامہ‘‘ کے خالق ابو القاسم فردوسی کا مسند نشین مجسمہ دیکھا تھا تو اس کی عظمت کا نقش دل پر بیٹھ گیا تھا جو کئی برس بعد طوس جا کر فردوسی کی آرام گاہ پر حاضری دینے سے دو چند بلکہ سہ چند ہو گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ دنیائے تصور میں اس مجسمے کا سائز بڑھتا گیا اور میرے تخیل نے اسے طوس میں دیکھی ہوئی فردوسی کی آرام گاہ کے سائز سے جا ملایا۔
اب جب میں مسند اردو و مطالعہ پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے پہلی باردانش گاہ تہران میں داخل ہوا تو فردوسی کا وہی مجسمہ تھا جس کے زیرسایہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا و طالبات ہاتھوں میں پھول لیے میرے استقبال کیلئے کھڑے تھے لیکن اب اس کا سائز اس مجسمے سے، جسے میرا تخیل پچھلے تیس برس تک تراشتا رہا، بہت چھوٹا ہو چکا تھا ۔
میراخیال تھاکہ یونی ورسٹی جاکر میں ضرور فردوسی کے مجسمے کو دیکھنے جائوں گا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ تہران یونیورسٹی کے استادکی حیثیت سے میرا استقبال اسی مجسمے کے زیر سایہ کیا جائے گا۔ فردوسی بڑی شان سے کتاب تھامے ہوئے بلند مسند پر بیٹھا تھا اور دانش کدئہ ادبیات کے اساتذہ اور طلبا و طالبات پھول لیے میرا استقبال کر رہے تھے۔ یہ ایک یادگار لمحہ تھا۔
نفیس اور شائستہ صدر شعبہ ڈاکٹر علی شہیدی، ڈاکٹر علی بیات، ڈاکٹر وفا یزدان منش، ڈاکٹر علی کائوسی نژاد، ڈاکٹر فرزانہ لطفی اور شعبہ اردو کے اسکالرز کے ہمراہ میں دانش کدئہ ادبیات میں داخل ہوا۔ ڈین آف فیکلٹی ڈاکٹر عبدالرضا سیف نے اپنے دفتر میں میرا استقبال کیا جہاں چائے کا اہتمام تھا۔ یہاں تعارفی گفتگو ہوئی، راقم نے ڈاکٹر عبدالرضا سیف کو اپنا مجموعہ منظومات ’’جہان بی پایان‘‘ پیش کیا اور انھوں نے راقم کو ایران میں مختصر کہانی کے سربرآوردہ ترین فنکار محمد علی جمالزادہ کے بارے میں ’’پدر داستان نویسی کوتاہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب اپنے اہدائی کلمات کے ساتھ عنایت کی۔
مجھے ایم اے کے کلاس روم میں لے جایا گیا تو میں نے طالب علموں سے مختصر خطاب کیا اور اس کے بعد ڈاکٹر وفا یزدان منش، ڈاکٹر علی کائوسی نژادا اور ڈاکٹر علی بیات نے میرے بارے میں اپنے پر محبت تاثرات بیان کیے اور اپنے دور طالب علمی کی یادوں پر مبنی کچھ واقعات سنائے۔ ڈاکٹر وفا کو اپنے زمانہ طالب علمی میں پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر ہونیولے میرے پروگرام خوب یاد تھے، جنھیں وہ اپنے ہاسٹل کے ٹی وی روم میں اپنی ہمجولیوں کے ساتھ پوری توجہ سے دیکھا کرتی تھیں۔
ڈاکٹر علی کائوسی نے بھی اپنے دور طالب علمی میں استوار ہونے والے پر محبت تعلق کی یادیں تازہ کیں۔ ڈاکٹر علی بیات نے ان سب گفتگووں کو سمیٹا۔ کلاس سے رخصت ہو کر ہم ڈاکٹر وفا کے کمرے میں گئے جہاں ایک بار پھر پرتکلف چائے سے تواضع کی گئی لیکن اس چائے کی خاص بات یہ تھی کہ یہ چائے ڈاکٹر وفا نے اپنے ہاتھوں سے بنائی اور خالص ایرانی لوازمات کے ساتھ پیش کی۔
واپسی پر میں نے فردوسی کے مجسمے سے متعلق اپنے تاثرات وتصورات بیان کیے، ڈاکٹر علی کائوسی نژادنے کہاکہ یہ مجسمہ بمبئی کا بنا ہوا ہے جو مجسمے کے سامنے کے رخ پر لکھا واضح پڑھا جا سکتا ہے۔ اس پر مجھے صفوی دورکے شاعرعلی قلی سلیم کامصرعہ یاد آیا کہ:
تانیامد سوی ہندوستان حنارنگین نشد
کہتے ہیں کہ مہندی کے پودے سے ہاتھوں کو رنگین کرنے کا ہنر ہندوستانیوں کی ایجاد ہے، اس لیے شاعرنے کہا کہ جب تک مہندی کا پودا ہندوستانیوں کے ہاتھ نہیں لگا تھا اس میں رنگینی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ میں نے جب اپنے عزیز شاگردوں کو اپنے اس تصور کے بارے میں بتایا جس کے مقابلے میں مجسمہ چھوٹا لگ رہا تھا تو انھوں نے کہا شاید آپ کے ذہن میں تہران کے فردوسی اسکوائر کا مجمسہ ہو لیکن مجھے معلوم ہے کہ فردوسی اسکوائر کے مجسمے میں فردوسی اپنے پورے قامت کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کے قدموں میں اس کی لافانی تخلیق ’’سہراب‘ ‘کو دکھایا گیا ہے جبکہ یہ بیٹھے ہوئے فردوسی کا نقش ہے۔
اصل میں اوّل اوّل یہی مجسمہ فردوسی اسکوائر میں لگایا گیا تھا اور یہ اہل ایران کیلئے ہندوستان کے پارسی اور زرتشتی مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے تحفہ تھا۔ یہ دھاتی مجسمہ یکم اکتوبر 1955کو فردوسی اسکوائر میں نصب کیا گیا۔ 1959میں اس کی جگہ ماربل کا بنا ہوا ایستادہ مجسمہ نصب کر دیا گیا اور یہ نشستہ مجسمہ تہران یونیورسٹی کے حصے میں ا ٓگیا۔ ابوالحسن صدیقی کی یہ تخلیق دانش کدئہ ادبیات وعلوم انسانی کے سامنے ایک اونچے پیڈسٹل پر نصب ہے۔
اس مجسمے کی شان وشوکت کا احساس میرے خیالات پر اس وقت سے چھایا ہوا تھا جب میں نے اسے پہلی بار ۱۹۹۵ء میں تہران یونیورسٹی کے دورے کے دوران دیکھا تھا۔
ایک زمانہ تھا جب لاہور میں بھی مجسمے ہوا کرتے تھے ۔باغ جناح میں قلم اور تلوار تھامے وائسرائے ہندسر جان لارنس کا مجسمہ تھا، اسمبلی ہال کے سامنے ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ تھا، پھر آزادی کے بعد یہ سب مجسمے ہٹا دیے گئے بلکہ سرجان لارنس کے مجسمے کا قلم اور تلوار تو لاہوریوں نے آزادی سے پہلے ہی توڑدیے تھے۔
اس پر مولانا ظفر علی خان نے ایک نظم بھی لکھی تھی: ’’لاہور میں کیا کام اب اس نام کے بت کا‘‘…جب چند سال پیشتر ’’این گناہی است کہ درشہر شمانیز کنند‘‘ کے طور پر لاہور میں علامہ اقبال کا مجسمہ لگایا گیا تو اسے دیکھ کر مجھے بے ساختہ فردوسی کا یہ مجسمہ یاد آیا تھا جسے دیکھ کر دل پر فردوسی کی عظمت کا احساس نقش ہوتا ہے جبکہ الحمرا ہال کے احاطے میں لگایا گیا اقبال کا مجسمہ، ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے، مہرومہ وانجم کا حساب رکھنے والے اور دامن ِیزداں سے الجھنے والے اقبال کا نہیں کچہری کے کسی منشی کا نقش ابھارتا ہے، ایسا ہی حال اس مجسمے کا ہے جو بزم اقبال اور مجلس ترقی ادب کے احاطے میں نصب کیا گیا ہے۔
الحمرا ہال والا مجسمہ اگر کسی منشی کا نقش ابھارتا ہے تو بزم اقبال کے احاطے میں نصب مجسمہ کسی بنیے کی تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ مجسمے بنانے والوں اور انھیں نصب کروانے والوں نے اگر مائیکل اینجلو کے بنائے ہوئے مجسمے نہیں دیکھے تھے، ویٹی کن کی سیر نہیں کی تھی، تہران یونیورسٹی کے دانش کدئہ ادبیات کے سامنے نصب فردوسی کا یہ مجسمہ نہیں دیکھا تھا تو وہ لاہور کے مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی کے باہر میونسپل کارپوریشن کی جگہ پر نصب پروفیسر وولنر کا مجسمہ ہی دیکھ لیتے جس سے انھیں اندازہ ہوتا کہ کسی بڑے تخلیق کار، استاد، مربی، دانشور یافن کار کا مجسمہ کیسا ہوتا ہے۔