شاہ ایران کے محلات

ان کا دعویٰ تھا علم حج سے بالاتر ہے‘ علم حاصل کریں‘ علم کی کوئی قضا نہیں ہوتی لہٰذا یہ زندگی میں حج نہیں کر سکے لیکن آپ ان کے مریدوں کا کمال دیکھیے‘ قم کے لوگ زندگی میں دو حج کرتے ہیں‘ ایک حج اپنے لیے اور دوسرا مرعشی نجفی کے لیے چناں چہ ہر سال ان کے نام پر دو لاکھ حج کیے جاتے ہیں‘
شاہ ایران کے محلات
اس مضمون کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔

شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ ایران کے وسیع و عریض محلات دیکھے‘ یہ بھی تہران کی نارتھ سائیڈ پر پہاڑیوں کے دامن میں ہیں‘ یہ ایک وسیع کمپلیکس ہے جسے سڑکوں اور ٹریکس کے ذریعے جوڑا گیا ہے‘ گیٹ سے مرکزی عمارت تک الیکٹرک گاڑیوں کے ذریعے پہنچا جاتا ہے‘ یہ گاڑیاں مسافروں کو محل کے پورچ میں پہنچا دیتی ہیں اور اس کے بعد مختلف محلات کے لیے پیدل چلنا پڑتا ہے‘ تمام عمارتیں پہاڑی راستوں پر ہیں اور ان تک پہنچنے کے لیے ٹانگیں اور پھیپھڑے دونوں ٹھیک ٹھاک استعمال ہوتے ہیں‘ ہم سب سے پہلے ایران کے آخری بادشاہ محمد شاہ پہلوی کے والد رضا خان پہلوی کے محل میں گئے‘ ہمیں وہاں جا کر علم ہوا عمارتوں میں داخلے کے لیے الگ الگ ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں اور یہ گیٹ سے ملتے ہیں‘ہم بہرحال دوبارہ گیٹ پر آئے‘ نئے سرے سے ٹکٹ خریدے اور دوبارہ محل میں پہنچ گئے۔

رضا خان پہلوی نے ایران میں پہلوی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی‘ یہ ماژندران صوبے سے تعلق رکھتے تھے‘ پہلوی ان کا قبیلہ تھا‘ قاچار خاندان کے سپاہی تھے‘ ان پڑھ تھے لیکن اس کے باوجود ترقی کی اور آرمی چیف اور قاچار خاندان کے آخری بادشاہ احمد شاہ قاچار کے دست راست بن گئے‘ احمد شاہ ایک نااہل حکمران تھا‘ اس کے دور میں ایران طوائف الملوکی کا شکار تھا‘ رضا خان نے اس کا فائدہ اٹھایا اور حکومت کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے‘ یہ آرمی چیف کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی بن گئے‘ احمد شاہ اس دوران بیمار ہو کر پیرس چلا گیا اور اس کا بھائی ولی عہد بن گیا‘ رضا خان نے اسے فارغ کیا اور 1925ء میں خود بادشاہ بن گیا اور یوں ایران میں 125 سال پرانی قاچار سلطنت ختم ہو گئی اور اس کی جگہ پہلوی دور شروع ہو گیا‘

رضا خان نے فارس کی جگہ ملک کا نام ایران کر دیا اور تہران کو اس کا دارالحکومت بنا دیا‘ اس نے ملک کو مذہبی کی جگہ لبرل شکل بھی دے دی‘ وہ اتاترک کے نقش قدم پر چل رہا تھا‘ 1941ء میں برطانیہ نے ایران پر قبضہ کر لیا تو یہ اپنے 22 سالہ بیٹے رضا شاہ پہلوی کے حق میں دستبردار ہوا اور ماریشیس اور پھر جنوبی افریقہ جلاوطن ہو گیا‘ وہ 1944ء میں جوہانس برگ میں انتقال کر گیا‘ اس کی میت تہران لائی گئی اور اسے شاہ عبدالعظیم کے مزار کے احاطے میں دفن کر دیا گیا۔رضا خان پہلوی کا محل ’’گرین پیلس‘‘ کہلاتا ہے‘

ہم اس کے محل میں داخل ہوئے‘ یہ چھوٹا سا محل تھا جس میں بادشاہ کا دفتر‘ ڈرائنگ روم‘ ڈائننگ روم اور بیڈ روم تھا‘ محل کی چھت‘ دیواروں اور فرش پر ٹھیک ٹھاک اخراجات کیے گئے تھے مگر اس کے باوجود محل زیادہ خوب صورت نہیں تھا‘ مجھے تبت کے دلائی لاما سے لے کر کیوبا کے فیڈل کاسترو تک درجنوں حکمرانوں کے محلات دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ ان سب کے محلات کے سامنے رضا خان پہلوی کا محل مسکین سا محسوس ہوا‘ یہ سائز اورآرائش دونوں میں درمیانہ تھا‘ ایران بھی کیوں کہ برادر اسلامی ملک ہے لہٰذا اس کے سرکاری اہلکار بھی ہمارے اہلکاروں کی طرح بے زار اور کام پر توجہ نہ دینے کی علت کا شکار ہیں‘ محل کا عملہ ان میں سے ایک تھا‘یہ موبائل فونوں پر مصروف تھے اور ان کے پاس سیاحوں کے لیے کوئی وقت نہیں تھا‘ ہمیں بہرحال محل دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی۔

ہم اس کے بعد رضا شاہ پہلوی (ایران کے آخری بادشاہ) کے محلات کی طرف نکل گئے‘ کمپلیکس کی ایک عمارت میں بادشاہ کی گاڑیاں کھڑی تھیں‘ یہ رولز رائس اور مرسڈیز کا بیڑہ تھا‘ ایرانی بڑی نفرت سے بتاتے ہیں ’’یہ دیکھیں ہمارا بادشاہ کتنا عیاش تھا‘‘ لیکن سچی بات ہے ہمیں بادشاہ کی کاروں نے بھی مایوس کیا‘ اس سے اچھی اور تعداد میں زیادہ گاڑیاں تو ملک ریاض کے پاس ہیں یا ماضی میں نواب آف بہاولپور کے پاس ہوتی تھیں‘ ایرانی اگر ان گاڑیوں کے ساتھ شاہ کو عیاش سمجھتے ہیں تو پھر نہیںپاکستان کا دورہ کرنا چاہیے‘ ان کی آنکھیں کھل جائیں گی ہاں البتہ شاہ کے ملبوسات کا عجائب گھر بڑا اور دیکھنے لائق تھا‘ شاہ نے تین شادیاں کی تھیں‘ اس کی پہلی بیوی ملکہ مصر کے شاہ فاروق کی ہمشیرہ شہزادی فوزیہ تھی‘

اس کے بطن سے صرف ایک بیٹی شہزادی شہناز پیدا ہوئی‘ بادشاہ نے اسے طلاق دے کر ثریا اسفندیاری سے شادی کی مگر وہ بادشاہ کو اولاد کی نعمت نہ دے سکی چناں چہ شاہ نے مجبور ہو کر 1959ء میں فرح دیبا سے شادی کر لی اور اس کے بطن سے 1960ء میں ولی عہد پرنس رضا پیدا ہوا لیکن اس بے چارے کو سلطنت نصیب نہیں ہوئی اور یہ آج جلاوطنی میں زندگی گزار رہا ہے‘ ملبوسات کے چیمبر میں بادشاہ‘ اس کی تینوں بیگمات اور بچوں کے ملبوسات تھے‘ یہ تعداد اور کوالٹی میں بہت اچھے تھے‘ شاہی خاندان ملک کے ہر حصے کے درزیوں اور جولاہوں کے کپڑے پہنتا تھا چناں چہ وہاں ایران کے تمام خطوں کے ملبوسات تھے اور ہر لباس کے سامنے کھڑے ہو کر داد دینے کا دل چاہتا تھا‘

شاہ کے فوجی لباس اور وردیوں کا سیکشن الگ تھا اور اس سیکشن میں لباس کے ساتھ شاہ کی تصویریں اور لباس کی تاریخ درج تھی‘ ہمیں شاہی کچن میں جانے کا اتفاق بھی ہوا‘کچن بڑا اور جدید تھا‘ شاہ نے سوئٹزرلینڈ میں تعلیم حاصل کی تھی لہٰذا کچن کی زیادہ تر مشینری بالخصوص مٹھائیاں بنانے کی مشینیں سوئٹزرلینڈ سے لائی گئی تھیں‘ بادشاہ کو کباب پسند تھے لہٰذا کباب سازی کا پورا سیکشن الگ تھا‘ کھانوں کو ٹیسٹ کرنے کا سیکشن بھی تھا جس میں موجود ڈاکٹر شاہ کو پیش کیے جانے والے تمام کھانے ٹیسٹ کرتے تھے اور اس کے بعد ڈاکٹر کے سر ٹیفکیٹ کے ساتھ کھانا بادشاہ کو پیش کیا جاتا تھا‘ ہم آخر میں ایران کے آخری بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے محل میں گئے لیکن وہاں رینوویشن چل رہی تھی اور وہ بند تھا‘

وہ بھی باہر سے زیادہ قابل توجہ نہیں تھا‘ ہم واپس چل پڑے‘ گیٹ کے ساتھ بادشاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک کا ٹارچر سیل تھا‘ ساواک کے درندے قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کرتے تھے اس سیکشن میں اس کی تصویریں‘ مجسمے اور آلات رکھے تھے‘ وہ واقعی ہولناک تھا‘ ہم علی شریعتی کے ساتھ ہونے والا سلوک دیکھ کر لرز کر رہ گئے‘ علی شریعتی دانشور اور انقلابی مفکر تھا اور انہیں شاہ کے حکم پرتین بار گرفتار کر کے ٹارچر کیا گیا‘ شاہی محلات بہرحال بہت زیادہ خوب صورت یا شاہانہ نہیں تھے تاہم محلات کی لوکیشن دل فریب تھی‘ اس کے اندر سے ندیاں بھی گزرتی تھیں اور اس کے باغات‘ جنگلات اور لان بھی خوب صورت تھے‘ پہاڑوں پر تازہ تازہ برف پڑی تھی لہٰذا برفیلے پہاڑوں کے سائے میں باغات کا منظر خوب صورت لگ رہا تھا۔

ہم دوسرے دن قم روانہ ہو گئے‘ قم تہران سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے اور اسے اہل تشیع میں خصوصی اہمیت حاصل ہے‘ قم میں حضرت امام رضاؒ کی ہمشیرہ سیدہ معصومہؒ کا روضہ اور اہل تشیع کے قدیم مدارس ہیں‘ شہر کی فضا میں خاص قسم کی پاکیزگی اور روحانیت ہے‘ ہم قم شہر میں داخلے سے پہلے ایک ریسٹ ایریا میں رکے‘ اس کا نام ’’مہرو ماہ‘‘ تھا‘ وہ ایک جدید اور خوبصورت عمارت تھی جس میں شاپنگ سنٹرز ‘ ریستوران اور کافی شاپس تھیں‘ اس قسم کے ریسٹ ایریاز پورے ایران میں ہیں‘ میرا نیشنل ہائی وے کو مشورہ ہے آپ ایران جائیں اور ریسٹ ایریاز کا ڈیزائن اور سہولتوں کا معیار ان سے لیں‘ سیاح پورا دن مہروماہ میں گزار سکتے ہیں‘

یہ اتنا خوب صورت اور معیاری ہے‘ ہم بہرحال قم میں سیدہ معصومہؒ کے روضہ پر پہنچ گئے‘ روضے میں تقدس اور روحانیت تھی‘ بی بی کی قبر کو سبز پردوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے تاہم زائرین جالیاں پکڑ کر دعا کر سکتے ہیں اور اس وقت سینکڑوں لوگ دعائیں کر رہے تھے‘ روضے کے دائیں بائیں ماضی کے مختلف آیت اللہ کی قبریں تھیں‘ قم کے مدارس روضے کے ساتھ ہیں‘ طالب علم ظہر کے وقت کلاسز کے بعد روضے پر آ جاتے ہیں اور پھر نماز کے بعد برآمدوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے اختلاف اور بحث کرتے ہیں‘ یہ چھوٹا سا مناظرہ ہوتا ہے لیکن اس میں ایک دوسرے کے جذبات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے‘

ہم نے دیکھا برآمدوں میں نوجوان طالب علم ٹولیوں میں ایک دوسرے سے مناظرہ کر رہے تھے لیکن ان کی آوازیں مدہم اور لہجے مہذب تھے‘ ہم روضہ شریف کے بعد آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبریری دیکھنے گئے‘ یہ قم کی سب سے بڑی اور قدیم لائبریری ہے جس میں اڑھائی لاکھ کتابیں اور 25 ہزار قلمی نسخے ہیں‘ مرعشی نجفی اہل تشیع کے واحد آیت اللہ ہیں جنہوں نے حج نہیں کیا تھا‘ وہ کتابوں کے عاشق تھے‘ اپنی ساری کمائی کتابوں پر خرچ کر دیتے تھے چناں چہ ہر سال حج کے وقت ان کے پاس زاد راہ نہیں بچتا تھا‘

ان کا دعویٰ تھا علم حج سے بالاتر ہے‘ علم حاصل کریں‘ علم کی کوئی قضا نہیں ہوتی لہٰذا یہ زندگی میں حج نہیں کر سکے لیکن آپ ان کے مریدوں کا کمال دیکھیے‘ قم کے لوگ زندگی میں دو حج کرتے ہیں‘ ایک حج اپنے لیے اور دوسرا مرعشی نجفی کے لیے چناں چہ ہر سال ان کے نام پر دو لاکھ حج کیے جاتے ہیں‘ مرعشی نجفی اپنی لائبریری میں فوت ہوئے تھے‘ ان کا مزار بھی لائبریری میں بنایا گیا تھا‘ ہم نے لائبریری کی ڈیوڑھی میں ان کا مزار دیکھا اور اس پر فاتحہ پڑھی تاہم ہمیں لائبریری دیکھنے کی اجازت نہیں ملی‘ انتظامیہ کا کہنا تھا لائبریری میں داخلے کے لیے ممبر شپ ضروری ہے اور ہم ظاہر ہے ممبر نہیں تھے لہٰذا ہم لائبریری میں داخل نہیں ہو سکے تاہم عمارت باہر سے وسیع اور خوب صورت تھی۔

ہم نے قم کی گلیوں میں سیاہ گائون میں سینکڑوں طالب علم اور اساتذہ دیکھے‘ حسین باقری نے بتایا سیاہ عمامہ اور سیاہ گائون میں ملبوس لوگ سید ہوتے ہیں‘ سید سبزعمامہ بھی پہن سکتے ہیں جب کہ سفید عمامہ اور سفید گائون کے لوگ طالب علم ہوتے ہیں‘ نجیب الطرفین (ماں باپ اور دونوں سائیڈز) سیدوں کو طبا طبائی کہا جاتا ہے چناں چہ جس شخص کے ساتھ طبا طبائی لکھا ہو اس کا مطلب ہے وہ والد اور والدہ دونوں سائیڈ سے سید زادہ ہے۔

 

مزید پڑھیں:

سعدی کے شیراز میں

تجویز کردہ مضامین:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے