شنگھائی تعاون تنظیم

۔ روس کی فی کس آمدنی 13647 ڈالر اور ہماری تجارت بمشکل ایک ارب ڈالر ہے جبکہ ایران کی فی کس آمدنی 4662 ڈالر اور ہماری تجارت 1.8ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح بھارت سے ہماری تجارت بمشکل 531 ملین ڈالر ہے جسے بڑھانے کا بہت پوٹینشل موجود ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم
اس مضمون کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔

شنگھائی تعاون تنظیم


پاکستان کیلئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ اسے اکتوبر 2024 ء میں جغرافیائی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہان مملکت کے اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا

 

شنگھائی تعاون تنظیم ایک علاقائی، سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تنظیم ہے جسے چین اور روس نے 15 جون 2001ء میں قائم کیا۔ شروع میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان SCO کے ممبر ملک تھے۔ پاکستان اور بھارت نے جون 2017ء، ایران نے 2023ء اور بیلاروس نے 2024ء میں تنظیم کے مستقل ممبرز کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور اس طرح SCO کے مستقل ارکان کی تعداد 10 ہے۔ اس کے علاوہ 3 ممالک مبصر اور 14 ممالک ڈائیلاگ پارٹنرز کی حیثیت سے تنظیم سے منسلک ہیں۔

جغرافیائی اعتبار سے SCO دنیا کے تقریباً 80 فیصد رقبے پر محیط ہے۔ 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق SCO دنیا کی 40 فیصد آبادی اور جی ڈی پی کا تقریباً 32 فیصد حصہ رکھتی ہے۔ تنظیم کے 4 اہداف میں رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی، تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا شامل ہیں۔

 

SCO کے اکتوبر میں ہونے والے سربراہی اجلاس سے قبل 10 اور 11 ستمبر کو پاکستان نے اسلام آباد میں SCO کی تجارت اور اقتصادی امور کے وزراء کے اجلاس کی میزبانی کی، جس میں پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کی۔ جام کمال نے خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے SCO کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔ اجلاس میں خطے میں تعاون کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کی گئی، تاکہ رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔

SCO سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو دعوت نامہ بھیجا گیا تھا، لیکن اُن کی جگہ بھارتی وزیر تجارت کانفرنس میں آن لائن شریک ہوں گے۔ گزشتہ سال 4 جولائی 2023 کو بھارت میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کی تھی، جہاں مختلف اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

 

پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تجارت اور اقتصادی امور کے وزراء کے اجلاس کیساتھ 12اور 13ستمبر کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) نے اسلام آباد میں SCO بزنس اور انویسٹمنٹ کانفرنس منعقد کی جس میں SCO ممبر ممالک کے چیمبرز، فیڈریشن، بزنس مین اور پاکستان میں تعینات SCO ممالک کے تمام سفیروں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں SCO ممالک میں تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے مواقع پر تقاریر اور پینل ڈسکشن کئے گئے۔

 

افتتاحی اجلاس میں سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی، وزیر تجارت جام کمال، وزیر پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک، گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور فیڈریشن کے صدر عاطف اکرام نے شرکت کی۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں اسپیکر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ دنیا میں تجارت کے فروغ کا سب سے کامیاب ماڈل ریجنل ٹریڈ یعنی علاقائی تجارت ہے۔

اگر ہم دنیا کے کامیاب علاقائی تجارت ماڈل کا موازنہ کریں تو نارتھ امریکن بلاک NAFTA کی باہمی تجارت 40 فیصد، یورپی یونین کے 27 ممالک کی باہمی تجارت 57 فیصد، آسیان ممالک کی باہمی تجارت 27 فیصد جبکہ SCO ممالک کی باہمی تجارت بمشکل 5 فیصد اور سارک ممالک کی باہمی تجارت 4 فیصد ہے۔ یعنی SCO اور سارک بلاک جن کے ممبرز میں پاکستان اور بھارت کے سیاسی اختلافات کی وجہ سے خطے کی تجارت فروغ نہیں پاسکی۔

پاکستان کی SCO ممالک سے ٹریڈ 24.6 ارب ڈالر ہے جس میں پاکستان سے ایکسپورٹ 4.6 ارب ڈالر اور امپورٹ 20 ارب ڈالر ہے۔ اس ٹریڈ میں پاکستان اور چین کی تجارت 22 ارب ڈالر ہے، یعنی دیگر ممالک سے پاکستان کی تجارت صرف ایک فیصد یعنی 2.6 ارب ڈالر ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے علاقائی تجارتی بلاک میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں نے اور دیگر مقررین نے تجویز دی کہ سیاست، ڈپلومیسی اور تجارت کو علیحدہ رکھا جائے۔ ہمیں بھارت سے تجارت پر پابندی ختم کرنا چاہئے اور بھارت کو بھی SCO اور سارک میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ہم علاقائی بلاکس کے مقاصد حاصل کرسکیں۔

 

SCO اور سارک ممالک سے تجارت کے فروغ کے لیے ہمیں ممبر ممالک کے درمیان بینکنگ چینل کھولنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر وسط ایشیائی ممالک، جن کی اپنی بندرگاہیں نہیں ہیں اور وہ پاکستان کے زمینی راستے سے تجارت کرتے ہیں، ان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کی سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا۔ خوشی کی بات ہے کہ حال ہی میں NLC نے وسط ایشیائی ممالک میں کنٹینرز کے ذریعے تجارت میں اضافہ کیا ہے، جو اس سمت میں ایک مثبت قدم ہے۔

SCO کے دو اہم ممالک، روس اور ایران، کے ساتھ پاکستان کی تجارت اب تک نہایت کم ہے۔ روس کی فی کس آمدنی 13,647 ڈالر ہے، لیکن ہماری تجارت بمشکل ایک ارب ڈالر تک پہنچتی ہے۔ اسی طرح ایران کی فی کس آمدنی 4,662 ڈالر ہے، اور ہماری باہمی تجارت 1.8 ارب ڈالر ہے۔ بھارت کے ساتھ بھی ہماری تجارت کم ہے، جو صرف 531 ملین ڈالر ہے، حالانکہ اس میں اضافہ کرنے کا بہت زیادہ پوٹینشل موجود ہے۔

SCO تنظیم کا مقصد دنیا میں تنہا سپر پاور کے نظریئے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ خطے میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے چینی وزیر خارجہ نے SCO کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں تجویز پیش کی کہ SCO ممالک کو افغانستان سے گریٹر ڈائیلاگ کرنا چاہئے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک اہم موقع ہوگا کہ وہ اس سوچ کو SCO کے پلیٹ فارم سے عملی جامہ پہنائے اور افغانستان سے دہشت گردی کے معاملے پر ڈائیلاگ کرے۔


 

تجویز کردہ مضامین:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے