عالمی مذاکراتی عمل اور نئی امریکی حکومت

ایران گیس پائپ لائن کا دور دور تک کوئی نام و نشا ن نہیں،جبکہ ملک میں گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی گیس دستیاب نہیں، لوڈ مینجمنٹ کے نام پر عوام کو ترسا ترسا کر وقفوں میں گیس فراہم کی جا رہی ہے اور پھر گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے تو غریب کی زندگی اجیرن کردی ہے۔
Share this article with your friends

انسانی ضد ہٹ دھرمی اور اَنا پرستی کا نتیجہ اختلاف، پھر لڑائی اور جنگ ہی ہوتا ہے۔جنگیں دنیا کو تباہ کرتی، انسانیت کا خون بہاتی ہیں۔یہ عالم بشریت میں سے مظلوموں کو کمزور اورظالموں کو طاقتور بھی بناتی ہیں۔اس حوالے سے روس اور یوکرائن کی جنگ کو ہی دیکھ لیں دو سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا اس جنگ میں بنی نوع انسان کے ساتھ کیا سے کیا کچھ نہیں ہوا؟اس میں یورپ کو جانے والی روس کی گیس پائپ لائن کویوکرائنی آرمی نے تباہ کر دیا، لیکن اس کے باوجود گیس کی مطلوبہ مقدارجو یورپ کو جاتی تھی وہ تو نہ جا سکی۔کچھ یورپی ممالک نے روس کے دوسرے ذرائع سے گیس حاصل کر لی ہے جن میں جرمنی اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں، لیکن اس جنگ کی طوالت نے گیس ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کو دوسرے راستے تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ روس نے کچھ علاقوں میں پائپ لائن گزاردی ہے اس کے بعدترکیہ نے استنبول کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں سے اپنی پائپ لائن کے ذریعے یورپ کو روسی گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے،لیکن دونوں ممالک کے درمیان پائپ لائن بچھانے میں کچھ اختلاف پایا جاتا تھا، جس کی وجہ شام میں ہیت تحریر الشام کے اقتدار پر قابض ہونے کے حوالے سے خارجہ پالیسی تھی۔اس وجہ سے ترکیہ نے یورپ کی سپلائی کا مرکزو محور استنبول کو نہیں بنایا تھا، لیکن مذاکرات کے ذریعے دونوں حکومتوں نے اس کا ایک نیا حل تلاش کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں یورپ کو گیس سپلائی کے لیے استنبول کو ہی مرکز و محور قرار دیا گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ترکیہ کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ اپنے اختلافات کو دور کرتے ہوئے ملکی اقتصادی تجارتی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ان کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح قطر سے گیس پائپ لائن بھی انہیں خطوط پر یورپ کو سپلائی دینے کے لئے ترکیہ کا راستہ اختیار کر لیا گیا ہے۔ان دونوں ممالک کی سمجھدار حکومتوں نے بھی اپنے اقتصادی اور تجارتی چیلنجوں کو دور کر کے معاہدہ کر لیا ہے اور ہر دو ممالک میں گیس پائپ لائن بچھانے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔

ان حالات میں بین الاقوامی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے اپنے ملک پاکستان کی فکر لاحق ہے کہ دنیا میں ایک بڑی تبدیلی آرہی ہے یا آ چکی ہے، لیکن اپنے توانائی بحران کو دور کرنے اور عوام کی سہولت کے لئے حکومت کیا کر رہی ہے۔کچھ نظرنہیں آرہا۔ ایران گیس پائپ لائن کا دور دور تک کوئی نام و نشا ن نہیں،جبکہ ملک میں گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی گیس دستیاب نہیں، لوڈ مینجمنٹ کے نام پر عوام کو ترسا ترسا کر وقفوں میں گیس فراہم کی جا رہی ہے اور پھر گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے تو غریب کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ میں حیران ہوں کہ مسئلے کے حل کا احساس بھی موجود نہیں۔ حکومت، سول بیورو کریسی اور افواجِ پاکستان گیس فراہمی میں جو اہم کردار ادا کر سکتی ہیں،وہ کیوں ادا نہیں کیا جا رہا۔ مجھے دکھ ہوتا ہے کہ ہم ایک ایک ایشو کو حل کرنے کے لئے اس کے طریقہ کار پر اس ایک مسئلے کو بنیاد بنا کر باقی پورے ملک کی ضروریات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اپنے پڑوسی ممالک سے کیوں جرأت مندانہ اقدام نہیں کرتے کہ ترجیحی بنیادوں پر اہم مسائل حل ہوسکیں۔بنیادی شہری ضروریات کی عدم دستیابی کی وجہ سے عوام میں ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ باہمی بین الاقوامی اختلافات کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے بھی ہمسایہ ممالک سے درآمدات اور برآمدات پر توجہ دی جائے، تاکہ ان کی مشکلات کے حل کے لئے اقدامات کئے جاسکیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت 25 کروڑ عوام کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے جو بھی ا قدامات اُٹھائے ان میں عوام کو ساتھ لے کر چلے اور انہیں آگاہ کرے۔

علاوہ ازیں،امریکہ میں نئی تشکیل پانے والی ممکنہ حکومت کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی گزارش کرتا ہوں جیسا کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران دنیا میں جنگ بندی کا عندیہ دیا تھا اور جو بائیڈن حکومت کے خلاف مہم چلائی تھی،اس وعدے کے اثرات اگلے ماہ20جنوری 2025ء کو حلف اٹھانے کے بعد ظاہر ہونے چاہئیں،جو بائیڈن حکومت کے سیاہ کارنامے روس یوکرائن جنگ، فلسطینیوں پر ظلم و بربریت جوبائیڈن حکومت کے دامن پر بہت بڑا سیاہ داغ ہے۔ اس لئے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے گزارش ہے کہ ایسے حالات پیدا نہ کریں کہ جس سے دنیا میں دوبارہ ایک بڑی جنگ کی شکل میں تباہی نمودار ہو۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزد کابینہ کے کچھ ارکان نے ایران کے تیل کی سپلائی پر پابندیاں لگانے کا عندیہ دیا ہے جبکہ دنیا کے اندر تقریبا ً30 فیصد سے زائل تیل کی ترسیلات’آبنائے ہرمز‘ سے گزرتی ہیں۔ امریکہ ایران کے اس بحری بیڑے پر پابندی لگانا چاہتا ہے جو مختلف ممالک کو تیل سپلائی کر رہا ہے۔ اس پر پابندی لگانے سے امریکہ انسانیت کو ایک بڑی جنگ کی طرف لے کر دھکیلنا چاہتا ہے۔ ان بحری بیڑوں پر پابندی لگائی جاتی ہے تو وہ نئے نام سے بھی رجسٹرڈ ہو جاتے ہیں، لیکن امریکہ اس سے ایک قدم آگے ان جہازوں کی چیسز نمبر پر بھی پابندی لگا کر ایران کو مشکل میں ڈالنا چاہتا ہے، لیکن میں نے امریکی حکمرانوں سے پہلے بھی عرض کیا اور اب بھی گذارش کر رہا ہوں کہ دنیا کو امن کی ضرورت ہے فساد کی نہیں۔ بلاشبہ امریکہ ایک بڑی طاقت ہے اور اس کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی بے خوف و خطر ایسے فیصلے کر سکتے ہیں،جس سے دنیا میں انار کی اور جنگ و جدل کی بجائے امن قائم ہو۔

یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ عرصہ گزر چکا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہو پایا۔7 اکتوبر 2023ء کو ’طوفان الاقصیٰ‘ کے نام سے فلسطینیوں نے اپنی آزادی کی جو جنگ شروع کی تھی اسرائیل باوجود کوششوں کے اسے ختم نہیں کر سکا۔ ایران اور اس کی اتحادی مزاحمتی تحریکیں، فلسطینیوں کی بھرپور طریقے سے مدد کر رہی تھیں اور اب بھی کر رہی ہیں، لیکن جب سے ’ہیت تحریر الشام‘ نامی تنظیم نے شام کے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا ہے تو وہ سپلائی لائن جو ایران سے براستہ شام پہنچ رہی تھی متاثرہو ئی ہے۔ اسرائیل کو جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے لئے موقع فراہم کرنے اور دمشق کے قریب تک پہنچنے میں مددگار نئی قابض حکومت ہے، جس نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شام میں آنے والی نئی حکومت اسرائیل کو مضبوط بنارہی ہے، جبکہ فلسطینیوں سے ہمدردی اور ان مظلوموں کی امداد بارے ان کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا۔اس سے صرف فلسطینی کاز ہی نہیں پورے عالم اسلام کو نقصان پہنچا ہے۔ فلسطینی بے یار و مددگار ہو گئے ہیں۔انہیں جو کچھ نہ کچھ ایران مدد کر رہا تھا،اس پر انہوں نے قدغن لگوا دی ہے، جس سے ایران سے زیادہ مشکلات فلسطینیوں کو سامنا ہے۔

Suggested articles:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *