مشہد میں دو دن (آخری حصہ)
ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں ایران فتح ہوا تو ایرانی بادشاہ یزدگرد کی دو صاحب زادیاں گرفتار ہو کر مدینہ منورہ لائی گئیں‘ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت علیؓ کی خواہش پر بڑی صاحب زادی شہربانو کا نکاح حضرت امام حسینؓ سے کر دیا جب کہ دوسری صاحب زادی گیہان بانو کو حضرت محمد بن ابی بکرؒ کے نکاح میں دے دیا گیا‘ حضرت محمد بن ابی بکرؒ کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ حضرت علیؓ کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیارؓ کی اہلیہ تھیں‘ جنگ موتہ میں ان کی شہادت کے بعد ان کا عقد حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ہو گیا۔ ان کے بطن سے محمد بن ابی بکرؒ پیدا ہوئے‘ یہ ابھی شیر خوار تھے کہ حضرت ابو بکرؓ کا وصال ہوگیا جس کے بعد حضرت اسماء نے حضرت علیؓ سے نکاح کر لیا یوں محمد بن ابی بکرؒ نے حضرت علیؓ کے گھر میں پرورش پائی۔
یہ گیہان بی بی سے نکاح کے بعد حضرت امام حسینؓ کے ہم زلف بھی بن گئے‘ اہل تشیع کے چوتھے امام حضرت زین العابدینؒ بی بی شہر بانو کے بطن سے تھے جب کہ حضرت امام جعفر صادقؒ پر پہنچ کر بی بی شہربانو اور گیہان بی بی کا شجرہ ایک ہو گیا‘ امام رضاؒ اس شجرے کے آٹھویں امام ہیں اور یہ مشہد میں مدفون ہیں۔
اہل تشیع کے لیے خانہ کعبہ‘ روضہ رسولؐ نجف اشرف اور کربلا کے بعد مشہد اہم ترین شہر ہے اور یہ زندگی میں کم از کم ایک بار امام رضاؒ کے مقبرے پر ضرور آتے ہیں‘ امام رضاؒ کا روضہ چھ لاکھ مربع میٹر پر مشتمل ہے‘ اس کے آٹھ دروازے‘ سات صحن اور 12 مینار ہیں اور اس میں 7 لاکھ لوگ بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں‘ روضہ مبارک کے بالکل ساتھ امیر تیمور کی بہو اور تیموری سلطنت کے دوسرے بادشاہ شاہ رخ کی بیگم گوہر شاد کی مسجد ہے‘اس کے برآمدے روضے کی طرف کھلتے ہیں‘ گوہر شاد نے یہ مسجد بنوا کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنا نام لکھوا دیا لہٰذا آج بھی جو زائر روضے پر حاضری دیتا ہے وہ مسجد گوہر شاد سے ہو کر آتا ہے اور زیارت کے ثواب کا ایک حصہ گوہر شاد کو چلا جاتا ہے۔
میں اور حسین باقری مسجد گوہر شاد سے ہوتے ہوئے روضہ کی عمارت میں داخل ہوئے‘وہاں بہت رش تھا لیکن اس کے باوجود دھکم پیل نہیں تھی‘ زائرین دعائیں بھی کر رہے تھے اور گریہ وزاری بھی‘ ہم بڑی مشکل سے جالیوں تک پہنچے‘دعا میں شریک ہوئے اور دوسرے دروازے سے باہر آ گئے‘ حرم کی صفائی لاجواب تھی‘ ایران میں دیواروں اور چھتوں پر شیشے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر شیش محل بنائے جاتے ہیں‘ حرم کا ایک پورشن شیش محل تھا‘ وہ دیکھنے لائق تھا‘ ہم اس کے بعد ڈائننگ ایریا کی طرف چل پڑے‘ راستے میں زائرین مختلف صحنوں میں نماز اور تلاوت میں مصروف تھے‘ میں نے دیکھا تمام قرآن مجید باترجمہ تھے۔
حسین باقری نے بتایا‘ ایران میں قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ شایع کیا جاتا ہے لہٰذا زیادہ تر آبادی قرآن فہم ہے‘ انھیں معلوم ہوتا ہے یہ کیا پڑھ رہے ہیں اور اس کا مطلب کیا ہے‘ میں نے وہاں اہل تشیع کو ہاتھ چھوڑ کر اور سجدے کی جگہ کربلا کی مٹی کی ٹکیاں رکھ کر نماز پڑھتے دیکھا جب کہ اہل سنت اسی صحن میں ان کے ساتھ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے‘ حسین باقری نے بتایا ایران میں سنی اور شیعہ میں مسلکی اختلاف ضرور ہے لیکن دشمنی نہیں ہے لہٰذا یہ اکٹھے نماز پڑھتے ہیں‘ ایران میں امام بارگاہ کو حسینیہ کہا جاتا ہے‘ حسین باقری کا کہنا تھا سنی العقیدہ لوگ حسینیہ بھی جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر واعظ بھی سنتے ہیں‘ اہل تشیع کے نزدیک امام رضاؒ کے کچن سے کھانا کھانا متبرک ہے۔
فاؤنڈیشن روزانہ دو لاکھ کھانے تیار کرتی ہے‘ چالیس ہزار لوگ ڈائننگ ہال میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں جب کہ باقی لوگ کھانے کے پیکٹ ہوٹل یا گھر لے جاتے ہیں‘ اس کے لیے باقاعدہ سسٹم ہیں‘ زائرین کو ویب سائیٹ پر جا کر اپنا نام لکھوانا پڑتا ہے اور ویب سائیٹ لاٹری کی طرح خوش نصیبوں کے ناموں کی فہرست جاری کرتی ہے‘ خوش نصیبوں کو ای کوپن ملتے ہیں اور یہ لوگ یہ کوپن سکین کر کے ڈائننگ ایریا میں پہنچ جاتے ہیں‘ ہم ہال میں داخل ہوئے تو حیران رہ گئے‘ کھانا انتہائی صاف ستھرا اور ماحول فائیو اسٹار تھا‘ اسٹاف بھی مہذب تھا اور وہ باقاعدہ باوردی تھا اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کا تجربہ رکھتا تھا‘ میں اس انتظام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ کاش ہم مشہد سے سیکھ کر داتا دربار کا سسٹم ٹھیک کر لیں اور زائرین کو عزت کے ساتھ کھانا کھلانا شروع کر دیں۔
مشہد روضے کے علاوہ بھی دل چسپ شہر ہے‘ تمام دکانیں دو سے پانچ بجے کے درمیان بند رہتی ہیں‘ دکان دار گھر جاتے ہیں‘ لنچ کرتے ہیں‘ قیلولہ کرتے ہیں اور پانچ بجے دوبارہ دکانیں کھول لیتے ہیں‘ 10 بجے تمام دکانیں بند ہو جاتی ہیں‘ مشہد کا کورڈ بازار امام رضاؒ سے منسوب ہے‘ اس کی تنگ گلیوں میں ہزاروں دکانیں ہیں جب کہ بالائی منزل پر زعفران کے ہول سیلرز کے دفتر ہیں‘ دنیا کی 98 فیصد زعفران ایران میں مشہد کے سو کلو میٹر کے دائرے میں پیدا ہوتی ہے‘ کائنات‘ تربت‘ اوچان اور گلستان زعفران کے اضلاع ہیں۔
زعفران کا پودا ٹیولپ کی طرح بلب جیسا ہوتا ہے اور یہ انتہائی شدید موسم میں پنپتا ہے یعنی سردیوں میں انتہائی سردی اور گرمیوں میں تیز خشک گرمی‘ پودے کو بڑا ہونے میں چار سال لگتے ہیں اور اس کے بعد ایک پھول سے صرف تین اسٹگما نکلتے ہیں یوں ایک کلو زعفران کے لیے دو لاکھ 80 ہزار پھول چاہییں‘ زعفران کے لیے سات دنوں میں تمام پھولوں کا کٹنا ضروری ہوتا ہے اور یہ عمل بھی صبح صادق کے وقت سورج نکلنے سے پہلے مکمل کیا جاتا ہے‘ پھولوں سے نہایت احتیاط سے اسٹگما نکالے جاتے ہیں اور پھر انھیں سائے میں خشک کیا جاتا ہے۔
اسٹگما (دھاگہ) جتنا لمبا اور سیدھا ہو گا زعفران اتنی ہی مہنگی بکتی ہے‘ ایران ہر سال 400 ٹن زعفران پیدا کرتا ہے جس میں سے آدھی ایران کے اندر استعمال ہوتی ہے‘ صرف آدھی ایکسپورٹ ہوتی ہے‘ ایرانی لوگ اپنے ہر کھانے اور چائے میں زعفران ڈالتے ہیں‘ اسے ادویات میں بھی ڈالا جاتا ہے‘ یہ انتہائی مہنگی جڑی بوٹی سمجھی جاتی ہے‘ بازار امام رضا کی بالائی منزل پر زعفران کے ہول سیلرز کے دفاتر ہیں‘ مجھے ایک دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا‘ وہ آٹھ بائی آٹھ کا دفتر تھالیکن اس کا مالک ہر سال ہزار کلو زعفران بیچتا تھا‘ اس کے اپنے کھیت تھے‘ اس کا کہنا تھا زعفران کے لیے ایسی زمین چاہیے جس میں درخت نہ ہوں اور اس میں پانی بھی اکٹھا نہ ہو‘ کھیت میں مصنوعی کھاد نہیں ڈالی جاتی اور اس میں کوئی اور فصل بھی نہیں بوئی جاتی۔
مشہد کے لوگ کھانوں کے شوقین ہیں‘ ان کا چلو کباب پوری دنیا میں مشہور ہے‘ فارسی میں چاولوں کو چلو کہتے ہیں لہٰذا چلو کباب میں زعفرانی چاول اور ایک لمبا سیخ کباب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ثابت بھنا ہوا ٹماٹر رکھا ہوتا ہے‘ یہ لوگ چاولوں کے کھڑنچ کو ’’تہہ دیک‘‘ کہتے ہیں‘ یہ ان کی محبوب خوراک ہوتی ہے چناں چہ ہر پلیٹ میں تھوڑا سا تہہ دیک ضرور ہوتا ہے‘ مشہد کے دو ریستوران بہت مشہور ہیں‘ پسران کریم اور شاندیز‘ پسران کریم بکرے کی گردن بیچتا ہے‘ یہ روزانہ پانچ ہزار کلو گوشت پکا کر فروخت کرتا ہے اور لوگ باقاعدہ لائنوں میں لگ کر ٹیبل تک پہنچتے ہیں‘ میں نے کھانا کھایا اور عش عش کر اٹھا‘ گردن کا اتنا نرم اور لذیذ گوشت میں نے اس سے قبل نہیں کھایا تھا‘ ہمارے میزبان امیر نے ایک کباب منگوایا اور اسے چکھنے کے لیے اصرار کیا‘ اس کباب کا نام فیلے تھا اور یہ جانور کی ریڑھ کی ہڈی کا گوشت کاٹ کر بنایا جاتا ہے۔
ایک جانور سے صرف ایک فیلے نکلتا ہے یعنی اگر آپ دس کبابوں کا آرڈر دیں گے تو دس کبابوں کے لیے دس جانور ذبح کیے جائیں گے لہٰذا فیلے کے لیے باقاعدہ پہلے سے بکنگ کرانا پڑتی ہے اور امیر نے یہ کام ہماری آمد سے تین دن پہلے کر دیا تھا‘ شاندیز مشہد کے مضافات میں ایک علاقہ ہے جس کے شاشلک کباب بہت مشہور ہیں‘ رات کے وقت شاندیز کی طرف جانے والی ہر گاڑی میں شاشلک کے طلب گار ہوتے ہیں‘ یہ کباب بھی شان دار تھے‘ امیر مشہد کا رئیس شخص ہے‘ اس کے 50 کے قریب کاروبار ہیں لیکن وہ گاڑی اور حلیے سے لوئر مڈل کلاس دکھائی دیتا ہے‘ میں نے حسین باقری سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا‘ مشہد میں روایت ہے لوگ ایک خاص حد کے بعد درویشی اختیار کر لیتے ہیں‘ یہ کم سے کم تر پر آ جاتے ہیں‘ چھوٹے گھروں میں شفٹ ہو جاتے ہیں‘ چھوٹی گاڑی اور کم سے کم کپڑے استعمال کرتے ہیں‘ امیر بھی درویش ہو چکا ہے‘ میں نے اس پر غور کیا تو مجھے یہ روایت پورے ایران میں ملی‘ ایرانی لوگ ترقی کے بعد عاجزی اور سادگی اختیار کر لیتے ہیں اور یہ ان کا ڈی این اے ہے۔
مجھے امام رضاؒ کے بزنس کمپلیکس جانے کا اتفاق بھی ہوا‘ کمپلیکس کے ڈائریکٹر نے شکایت کی‘ پاکستان سے ہر سال چھ سے سات لاکھ زائرین آتے ہیں‘ ان کی حالت اور لائف اسٹائل بہت خراب ہوتا ہے‘ گندے کپڑے پہن رکھے ہوتے ہیں‘ ان کی بسیں پرانی اور خراب ہوتی ہیں اور یہ راستے میں بند ہو جاتی ہیں‘ یہ کھانا بھی بسوں میں پکاتے ہیں‘ تفتان بارڈر بھی سنسان اور بیابان ہے‘ کوئٹہ سے بارڈر تک کوئی ریسٹ ایریا نہیں چناں چہ ہمیں ان لوگوں کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے‘ مشہد میں مشہور ہے یہاں جو بھی خستہ حال شخص نظر آئے گا وہ پاکستانی ہو گا‘ یہ سات لاکھ لوگ پاکستان کے سفیر ہیں اور ان کی وجہ سے یہاں پاکستان کا امیج بہت خراب ہے‘ آپ مہربانی فرما کر ان کی حالت ٹھیک کر دیں یا حکومت کوئی ایسی پالیسی بنائے جس سے زائرین کو لانے والی کمپنیاں انھیں پراپر سہولتیں دیں‘ہماری فاؤنڈیشن کے پاس ملکوں سے زیادہ سرمایہ ہے‘ ہم بھی آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن کوئی ہماری طرف ہاتھ تو بڑھائے‘ آپ یقین کریں مجھے یہ سن کر بڑی شرم آئی‘ شاید یہ سطریں پڑھ کر ہماری حکومت کوبھی شرم آ جائے۔
ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں ایران فتح ہوا تو ایرانی بادشاہ یزدگرد کی دو صاحب زادیاں گرفتار ہو کر مدینہ منورہ لائی گئیں‘ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت علیؓ کی خواہش پر بڑی صاحب زادی شہربانو کا نکاح حضرت امام حسینؓ سے کر دیا جب کہ دوسری صاحب زادی گیہان بانو کو حضرت محمد بن ابی بکرؒ کے نکاح میں دے دیا گیا‘ حضرت محمد بن ابی بکرؒ کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ حضرت علیؓ کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیارؓ کی اہلیہ تھیں‘ جنگ موتہ میں ان کی شہادت کے بعد ان کا عقد حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ہو گیا۔ ان کے بطن سے محمد بن ابی بکرؒ پیدا ہوئے‘ یہ ابھی شیر خوار تھے کہ حضرت ابو بکرؓ کا وصال ہوگیا جس کے بعد حضرت اسماء نے حضرت علیؓ سے نکاح کر لیا یوں محمد بن ابی بکرؒ نے حضرت علیؓ کے گھر میں پرورش پائی۔
یہ گیہان بی بی سے نکاح کے بعد حضرت امام حسینؓ کے ہم زلف بھی بن گئے‘ اہل تشیع کے چوتھے امام حضرت زین العابدینؒ بی بی شہر بانو کے بطن سے تھے جب کہ حضرت امام جعفر صادقؒ پر پہنچ کر بی بی شہربانو اور گیہان بی بی کا شجرہ ایک ہو گیا‘ امام رضاؒ اس شجرے کے آٹھویں امام ہیں اور یہ مشہد میں مدفون ہیں۔
اہل تشیع کے لیے خانہ کعبہ‘ روضہ رسولؐ نجف اشرف اور کربلا کے بعد مشہد اہم ترین شہر ہے اور یہ زندگی میں کم از کم ایک بار امام رضاؒ کے مقبرے پر ضرور آتے ہیں‘ امام رضاؒ کا روضہ چھ لاکھ مربع میٹر پر مشتمل ہے‘ اس کے آٹھ دروازے‘ سات صحن اور 12 مینار ہیں اور اس میں 7 لاکھ لوگ بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں‘ روضہ مبارک کے بالکل ساتھ امیر تیمور کی بہو اور تیموری سلطنت کے دوسرے بادشاہ شاہ رخ کی بیگم گوہر شاد کی مسجد ہے‘اس کے برآمدے روضے کی طرف کھلتے ہیں‘ گوہر شاد نے یہ مسجد بنوا کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنا نام لکھوا دیا لہٰذا آج بھی جو زائر روضے پر حاضری دیتا ہے وہ مسجد گوہر شاد سے ہو کر آتا ہے اور زیارت کے ثواب کا ایک حصہ گوہر شاد کو چلا جاتا ہے۔
میں اور حسین باقری مسجد گوہر شاد سے ہوتے ہوئے روضہ کی عمارت میں داخل ہوئے‘وہاں بہت رش تھا لیکن اس کے باوجود دھکم پیل نہیں تھی‘ زائرین دعائیں بھی کر رہے تھے اور گریہ وزاری بھی‘ ہم بڑی مشکل سے جالیوں تک پہنچے‘دعا میں شریک ہوئے اور دوسرے دروازے سے باہر آ گئے‘ حرم کی صفائی لاجواب تھی‘ ایران میں دیواروں اور چھتوں پر شیشے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر شیش محل بنائے جاتے ہیں‘ حرم کا ایک پورشن شیش محل تھا‘ وہ دیکھنے لائق تھا‘ ہم اس کے بعد ڈائننگ ایریا کی طرف چل پڑے‘ راستے میں زائرین مختلف صحنوں میں نماز اور تلاوت میں مصروف تھے‘ میں نے دیکھا تمام قرآن مجید باترجمہ تھے۔
حسین باقری نے بتایا‘ ایران میں قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ شایع کیا جاتا ہے لہٰذا زیادہ تر آبادی قرآن فہم ہے‘ انھیں معلوم ہوتا ہے یہ کیا پڑھ رہے ہیں اور اس کا مطلب کیا ہے‘ میں نے وہاں اہل تشیع کو ہاتھ چھوڑ کر اور سجدے کی جگہ کربلا کی مٹی کی ٹکیاں رکھ کر نماز پڑھتے دیکھا جب کہ اہل سنت اسی صحن میں ان کے ساتھ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے‘ حسین باقری نے بتایا ایران میں سنی اور شیعہ میں مسلکی اختلاف ضرور ہے لیکن دشمنی نہیں ہے لہٰذا یہ اکٹھے نماز پڑھتے ہیں‘ ایران میں امام بارگاہ کو حسینیہ کہا جاتا ہے‘ حسین باقری کا کہنا تھا سنی العقیدہ لوگ حسینیہ بھی جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر واعظ بھی سنتے ہیں‘ اہل تشیع کے نزدیک امام رضاؒ کے کچن سے کھانا کھانا متبرک ہے۔
فاؤنڈیشن روزانہ دو لاکھ کھانے تیار کرتی ہے‘ چالیس ہزار لوگ ڈائننگ ہال میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں جب کہ باقی لوگ کھانے کے پیکٹ ہوٹل یا گھر لے جاتے ہیں‘ اس کے لیے باقاعدہ سسٹم ہیں‘ زائرین کو ویب سائیٹ پر جا کر اپنا نام لکھوانا پڑتا ہے اور ویب سائیٹ لاٹری کی طرح خوش نصیبوں کے ناموں کی فہرست جاری کرتی ہے‘ خوش نصیبوں کو ای کوپن ملتے ہیں اور یہ لوگ یہ کوپن سکین کر کے ڈائننگ ایریا میں پہنچ جاتے ہیں‘ ہم ہال میں داخل ہوئے تو حیران رہ گئے‘ کھانا انتہائی صاف ستھرا اور ماحول فائیو اسٹار تھا‘ اسٹاف بھی مہذب تھا اور وہ باقاعدہ باوردی تھا اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کا تجربہ رکھتا تھا‘ میں اس انتظام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ کاش ہم مشہد سے سیکھ کر داتا دربار کا سسٹم ٹھیک کر لیں اور زائرین کو عزت کے ساتھ کھانا کھلانا شروع کر دیں۔
مشہد روضے کے علاوہ بھی دل چسپ شہر ہے‘ تمام دکانیں دو سے پانچ بجے کے درمیان بند رہتی ہیں‘ دکان دار گھر جاتے ہیں‘ لنچ کرتے ہیں‘ قیلولہ کرتے ہیں اور پانچ بجے دوبارہ دکانیں کھول لیتے ہیں‘ 10 بجے تمام دکانیں بند ہو جاتی ہیں‘ مشہد کا کورڈ بازار امام رضاؒ سے منسوب ہے‘ اس کی تنگ گلیوں میں ہزاروں دکانیں ہیں جب کہ بالائی منزل پر زعفران کے ہول سیلرز کے دفتر ہیں‘ دنیا کی 98 فیصد زعفران ایران میں مشہد کے سو کلو میٹر کے دائرے میں پیدا ہوتی ہے‘ کائنات‘ تربت‘ اوچان اور گلستان زعفران کے اضلاع ہیں۔
زعفران کا پودا ٹیولپ کی طرح بلب جیسا ہوتا ہے اور یہ انتہائی شدید موسم میں پنپتا ہے یعنی سردیوں میں انتہائی سردی اور گرمیوں میں تیز خشک گرمی‘ پودے کو بڑا ہونے میں چار سال لگتے ہیں اور اس کے بعد ایک پھول سے صرف تین اسٹگما نکلتے ہیں یوں ایک کلو زعفران کے لیے دو لاکھ 80 ہزار پھول چاہییں‘ زعفران کے لیے سات دنوں میں تمام پھولوں کا کٹنا ضروری ہوتا ہے اور یہ عمل بھی صبح صادق کے وقت سورج نکلنے سے پہلے مکمل کیا جاتا ہے‘ پھولوں سے نہایت احتیاط سے اسٹگما نکالے جاتے ہیں اور پھر انھیں سائے میں خشک کیا جاتا ہے۔
اسٹگما (دھاگہ) جتنا لمبا اور سیدھا ہو گا زعفران اتنی ہی مہنگی بکتی ہے‘ ایران ہر سال 400 ٹن زعفران پیدا کرتا ہے جس میں سے آدھی ایران کے اندر استعمال ہوتی ہے‘ صرف آدھی ایکسپورٹ ہوتی ہے‘ ایرانی لوگ اپنے ہر کھانے اور چائے میں زعفران ڈالتے ہیں‘ اسے ادویات میں بھی ڈالا جاتا ہے‘ یہ انتہائی مہنگی جڑی بوٹی سمجھی جاتی ہے‘ بازار امام رضا کی بالائی منزل پر زعفران کے ہول سیلرز کے دفاتر ہیں‘ مجھے ایک دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا‘ وہ آٹھ بائی آٹھ کا دفتر تھالیکن اس کا مالک ہر سال ہزار کلو زعفران بیچتا تھا‘ اس کے اپنے کھیت تھے‘ اس کا کہنا تھا زعفران کے لیے ایسی زمین چاہیے جس میں درخت نہ ہوں اور اس میں پانی بھی اکٹھا نہ ہو‘ کھیت میں مصنوعی کھاد نہیں ڈالی جاتی اور اس میں کوئی اور فصل بھی نہیں بوئی جاتی۔
مشہد کے لوگ کھانوں کے شوقین ہیں‘ ان کا چلو کباب پوری دنیا میں مشہور ہے‘ فارسی میں چاولوں کو چلو کہتے ہیں لہٰذا چلو کباب میں زعفرانی چاول اور ایک لمبا سیخ کباب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ثابت بھنا ہوا ٹماٹر رکھا ہوتا ہے‘ یہ لوگ چاولوں کے کھڑنچ کو ’’تہہ دیک‘‘ کہتے ہیں‘ یہ ان کی محبوب خوراک ہوتی ہے چناں چہ ہر پلیٹ میں تھوڑا سا تہہ دیک ضرور ہوتا ہے‘ مشہد کے دو ریستوران بہت مشہور ہیں‘ پسران کریم اور شاندیز‘ پسران کریم بکرے کی گردن بیچتا ہے‘ یہ روزانہ پانچ ہزار کلو گوشت پکا کر فروخت کرتا ہے اور لوگ باقاعدہ لائنوں میں لگ کر ٹیبل تک پہنچتے ہیں‘ میں نے کھانا کھایا اور عش عش کر اٹھا‘ گردن کا اتنا نرم اور لذیذ گوشت میں نے اس سے قبل نہیں کھایا تھا‘ ہمارے میزبان امیر نے ایک کباب منگوایا اور اسے چکھنے کے لیے اصرار کیا‘ اس کباب کا نام فیلے تھا اور یہ جانور کی ریڑھ کی ہڈی کا گوشت کاٹ کر بنایا جاتا ہے۔
ایک جانور سے صرف ایک فیلے نکلتا ہے یعنی اگر آپ دس کبابوں کا آرڈر دیں گے تو دس کبابوں کے لیے دس جانور ذبح کیے جائیں گے لہٰذا فیلے کے لیے باقاعدہ پہلے سے بکنگ کرانا پڑتی ہے اور امیر نے یہ کام ہماری آمد سے تین دن پہلے کر دیا تھا‘ شاندیز مشہد کے مضافات میں ایک علاقہ ہے جس کے شاشلک کباب بہت مشہور ہیں‘ رات کے وقت شاندیز کی طرف جانے والی ہر گاڑی میں شاشلک کے طلب گار ہوتے ہیں‘ یہ کباب بھی شان دار تھے‘ امیر مشہد کا رئیس شخص ہے‘ اس کے 50 کے قریب کاروبار ہیں لیکن وہ گاڑی اور حلیے سے لوئر مڈل کلاس دکھائی دیتا ہے‘ میں نے حسین باقری سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا‘ مشہد میں روایت ہے لوگ ایک خاص حد کے بعد درویشی اختیار کر لیتے ہیں‘ یہ کم سے کم تر پر آ جاتے ہیں‘ چھوٹے گھروں میں شفٹ ہو جاتے ہیں‘ چھوٹی گاڑی اور کم سے کم کپڑے استعمال کرتے ہیں‘ امیر بھی درویش ہو چکا ہے‘ میں نے اس پر غور کیا تو مجھے یہ روایت پورے ایران میں ملی‘ ایرانی لوگ ترقی کے بعد عاجزی اور سادگی اختیار کر لیتے ہیں اور یہ ان کا ڈی این اے ہے۔
مجھے امام رضاؒ کے بزنس کمپلیکس جانے کا اتفاق بھی ہوا‘ کمپلیکس کے ڈائریکٹر نے شکایت کی‘ پاکستان سے ہر سال چھ سے سات لاکھ زائرین آتے ہیں‘ ان کی حالت اور لائف اسٹائل بہت خراب ہوتا ہے‘ گندے کپڑے پہن رکھے ہوتے ہیں‘ ان کی بسیں پرانی اور خراب ہوتی ہیں اور یہ راستے میں بند ہو جاتی ہیں‘ یہ کھانا بھی بسوں میں پکاتے ہیں‘ تفتان بارڈر بھی سنسان اور بیابان ہے‘ کوئٹہ سے بارڈر تک کوئی ریسٹ ایریا نہیں چناں چہ ہمیں ان لوگوں کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے‘ مشہد میں مشہور ہے یہاں جو بھی خستہ حال شخص نظر آئے گا وہ پاکستانی ہو گا‘ یہ سات لاکھ لوگ پاکستان کے سفیر ہیں اور ان کی وجہ سے یہاں پاکستان کا امیج بہت خراب ہے‘ آپ مہربانی فرما کر ان کی حالت ٹھیک کر دیں یا حکومت کوئی ایسی پالیسی بنائے جس سے زائرین کو لانے والی کمپنیاں انھیں پراپر سہولتیں دیں‘ہماری فاؤنڈیشن کے پاس ملکوں سے زیادہ سرمایہ ہے‘ ہم بھی آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن کوئی ہماری طرف ہاتھ تو بڑھائے‘ آپ یقین کریں مجھے یہ سن کر بڑی شرم آئی‘ شاید یہ سطریں پڑھ کر ہماری حکومت کوبھی شرم آ جائے۔
مزید پڑھیں:
مشہد میں دو دن |