موسم بهار کی رنگینی اور نوروز
جب خداوند بزرگ بھار کے موسم میں رنگ آمیزی کرتا ہے تو زمین سبز قبا ذیب تن کرتی ہے ہر طرف پھول ہی پھول کھلتے ہیں ۔ خشک اور بے جان درخت سبزو خرم ہو جاتے ہیں۔ پرندے چہچہاتے ہیں ۔ روئے زمین کی ہر چیز نئی لگتی ہے موسم بھار مژدہ عید نوروز لے کر آتی ہے ۔
"نوروز ” فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی "نیا دن کے ہیں۔ اس تہوار کو قدیم فارسی کیلینڈر کے آغاز پر منایا جاتا ہے ۔ نوروز کی تاریخ پیدایش اور سر چشمے کے بارے میں صحیح معلومات نہیں ہیں لیکن تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قدیم جشن تین ہزار سال سے منایا جا رہا ہے ۔ شاہنامہ فردوسی کے مطابق اس جشن کو بادشاہ جمشید سے منسوب کیا جاتا ۔ لیکن باقاعدہ طور پر اس جشن کو ایران میں پانچ سواڑ تیس برس قبل مسیح ، ھخامنشی بادشاہ کو روش کبیر کے زمانے میں باقاعدہ طورپر قومی جشن کے طور پر منایا گیا اور ھخا منشی بادشاہ ھر سال اس دن فوجیوں کی ترقی، پبلک مقامات، ذاتی گھروں کی پاک سازی اور مجرمین کو معاف کرنے کے سلسلے میں پروگرام اور تقریبات کا اہتمام کرتے تھے ۔ ھخامنشی بادشاہ دار یوش یکم کے زمانے میں تخت جمشید میں نوروز کی تقریب منعقد ہوا کرتی تھی ۔ وہاں کے آثار قدیمہ اور پتھروں پر لکھی ہوئی تحرویرں سے پتہ چلتا ہے کہ ھخا منشیوں کے دور میں لوگ نوروز کا جشن بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے تھے اور پر شکوہ اجتماعات منعقد ہوا کرتے تھیں ۔ ایران میں اسلام کےآنے ، ایرانیوں کے مسلمان ہونےاور ساسانیوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد عید نورو ز بڑے اہتمام اور وسیع پیمانے پر منایا جانے لگا ۔ سلجوقی دور میں ایرانی منجمین اور ماہرین کی ایک تعدا د بشمو ل خیام نے ، ایرانی کیلینڈر کی تدوین کا آغاز کیا۔ اسطرح منجمین اور ماہرین نے نوروز کو بہار کا پہلا دن اور فروردین کی پہلی تاریخ قرار دیا او ر کیلنڈ ر کو اس کے مطابق مرتب اور منظم کیا ۔
نوروز کے بارے ” نوروز نامہ ” معتبر کتاب ہے جسے حکیم عمر خیام نیشاپوری نے 480 شمسی بمطابق 1101 عیسوی میں تحریر کی ۔ یہ کتاب جشن روز کی پیدائش اور اس کے آداب و رسوم کے بارے میں ہے اور اس میں نوروز کو ایران کا قومی جشن قرار دیا گیاہے ۔ ایران کا یہ قدیم جشن اپنی قدیم روایات اور رسومات کے ساتھ آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
نو روز کی تقریبات
خانہ تکانی (گهر کی صفائی)
جیسے جیسے نوروز قریب آتا ہے، ایرانی اپنے گھر کی صفائی کے عمل کو چند ہفتے پہلے شروع کر دیتے ہیں۔ اس عمل میں وہ قالین کی دھلائی، فروشوں، دیواروں اور فرنیچر کی صقائی اور گهر کی ہر چیز کو صاف کرتے ہیں۔ایرانی اپنے گھر کی صفائی اور نئے کپڑے خریدنے کے ساتھ ساتھ پھول خرید کر نوروز کی تیاری شروع کرتے ہیں۔اور یہ پهول گهر کے گلدانوں میں آرایش کے طور پر سجاتے ہیں۔ "فطرت کے دوبارہ جنم” کے سلسلے میں، موسم بہار کی صفائی ایک قومی روایت ہے جو تقریباً تمام ایرانی خاندانوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ ذاتی لباس پر بھی لاگو ہوتا ہے،
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ گھر کی صفائی ایک روایت ہے جو زرتشتی مذہب سے نقل کی گئی ہے۔ کچھ دیہاتوں میں، ایرانی اپنے گھروں کی سفیدی بھی کی کرتے ہیں اور پرانے فرنیچر کو پھینکنا اور پرانے برتنوں کو توڑنا بهی ایک رسم ہے،وه یہ یقین رکھتے ہوئے کہ یہ بری روحوں، بری توانائیوں اور بری روحوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سائنسدانوں نے بعد میں دریافت کیا کہ پرانے برتن جراثیم کے بڑھنے کے اچھی آماجگاه ہیں اس لئے ان کو تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔
سفره هقت سین ( سات چیزوں پر مشتمل دستر خوان)
ایرانیوں کے لیے سب سے اہم اور یادگار رسم سات سین پر مشتمل اشیاء کا دسترخوان پھیلایا جانا ہے۔ ہفت سین دسترخوان کا پھیلاؤ اور سجاوٹ اپنے رسم و رواج اور ضوابط کے ساتھ ایرانیوں کی طرف سے ہر سال نئے سال کے آغاز پر اور موسم بہار کے آغاز کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔ . ایرانی جوش و خروش کے ساتهہ اس دسترخوان کو پھیلاتے ہیں اور اس میز پر ہر چیز ایک خاص علامت کے طور پر رکھتے ہیں۔ یه سات چیزوں پر مشتمل ، جن میں ، سنجد ، سمنو ، سیر و سماق ، سیب، سرکہ، سبزه اور سکہ شامل ہیں.
سنجد زرخیزی اور حکمت کی علامت ہے۔
سمنو ترقی، فراوانی، نیکی اور برکت کی علامت ہے اور یہ گندم کے شایستہ سے تیار کیا جاتا ہے۔
سیر اور سماق غذا میں چاشنی اور ذائقہ کی علامت اور زندگی میں خوشی کا محرک ہیں۔
سیب صحت اور زرخیزی کی علامت ہے
سرکہ مصیبت اور برے وقت میں صبر و تسلیم و رضا کی علامت ہے۔
سکہ آمدنی میں برکت کی علامت ہے۔
اس کے علاوه میز پر رنگ کرده انڈے ، اور پانی کے اندر موجود مچهلیاں آئینہ اور قرآن زندگی میں برکت کی علامت کے طور پر رکھے جاتے ہیں
چهار شنبہ سوری( سرخی والا بدھ کا روز)
نوروز سے پہلے سال کا آخری بدھ نوروز کی تقریبات میں سے ایک اہم دن ہے جو سال کے آخری بدھ (منگل کی رات) کو منعقد کی جاتا ہے۔ چهار شنبہ دو الفاظ سے بنا ہے جو ہفتے کے دنوں میں سے بدھ کا نام ہے۔ اور سوری کا مطلب سرخ ہے۔ قدیم رسومات کے مطابق اس دن ایک بڑی آگ جلائی جاتی ہے جسے اگلے روز صبح سویرے سورج کے طلوع ہونے تک روشن رکھا جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ آگ تمام بیماریاں اور پریشانیاں دور کر دیتی ہے اور اس کے بجائے انہیں لالی، گرمی اور طاقت دیتی ہے۔ نوجوان لڑے اور لڑکیاں اس آگ سے چھلانگ لگاتے ہیں اور جب وہ چھلانگ لگاتے ہیں تو خوشی سے کہتے ہیں: "میری پیلا پن (بیماری ) تمارے اور تمہاری لالی اور طاقت میرے سپرد ۔
عمو نوروز ( چچا نوروز )
نوروز کی تقریب چچا نوروز کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہر سال کے آخری ایام میں حاجی فیروز سرخ کپڑوں میں اور سیاہ چہرے کے ساتھ سڑکوں پر نکل کر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ ان سے رقم وصول کر سکے۔ اس کا سرخ لباس ایک طویل روایت کی علامت ہے، ایک روایت جو موسم بہار اور فطرت کی پیدائش کا وعدہ کرتی ہے۔ حاجی فیروز جو سال میں ایک دن شہر کی گلیوں اورسڑکوں کا مہمان ہوتا ہے۔ لوگ اسے تعریفی نشان کے طور پر خشک میوه جات، مٹھائی یا سکے جیسے چھوٹے تحائف بھی دیتے ہیں۔
حاجی فیروزه
سالی یه روزه
همه می دونن
منم می دونم
عید نورزه
سالی یه روزه
تحویل سال
سال کے اختتام پر تمام ایرانی خاندان دسترخوان پر بیٹھتے ہیں اور نئے سال کا آغاز دعا کی تلاوت سے ہوتا ہے۔
يا مُقلّبَ القلوبِ و الأبصار
يا مُدبِّرَ الليلِ و النَّهار
يا مُحوِّلَ الحَولِ و الأحوال
حوِّل حالَنا إلى أحسنِ الحال
اے دلوں اور آنکھوں کے بدلنے والے
اے دن اور راتوں کے منتظم اور انتظام کرنے والے
اے انسان اور فطرت کے بدلنے والے
ہمارلے حال کو بہترین حال میں تبدیل فرما
تحویل سال کا لمحہ مٹھائیوں اور گلاب کے پھولوں کے بکھرنے اور لوگوں کی خوشی کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے۔
عید کا روز
ملاقاتوں کا سلسلہ عید کی صبح سے شروع ہو جاتا ہے۔ایرانی خاندانوں میں یہ رواج ہے کہ کسی ایسے شخص سے ملاقات کی جائے جو عمر اور مرتبہ میں سب سے برتر ہو اور اس کا ہاتھ چوم کر اسے مبارکباد دے۔بڑے چهوٹوں کو عیدی میں پیسے دیتے ہیں۔ نئے دن کی تقریبات کم از کم دو ہفتے تک جاری رہتی ہیں اور "سیزدہ بدر” پر ختم ہوتی ہیں۔
سیزده بہ در ( تیرہواںروز گهر سےباہر )
ایرانی ماه فروردین کی 13 تاریخ کی صبح تمام لوگ گروہ در گروه شہر کے اطراف کے پہاڑوں اور باغات میں جاتے ہیں . ان کا یه اور یہ ماننا ہے کہ تیرھویں دن گھروں میں نہیں رہنا چاہیے کیونکہ یہ منحوس دن ہے۔ تیرھویں دن طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک لوگ گهر سے باهر رہتے ہیں۔ اس دن، خواتین، خاص طور پر لڑکیاں،سبزه پر گرہ باندھتی ہیں، جو وہ دراصل اپنی قسمت کھولنے کے لیے کرتی ہیں۔