ڈاکٹرسید محمد اکرم شاه اکرام
ابهی کچھ دن پہلے 20 اگست 2022 کو ہم سب کی ہر دلعزیز شخصیت ، استادوں کے استاد ، محقق ،شاعر ، بہت ہی معروف اقبال شناس ڈاکٹر سید محمد اکرم شاه اکرام کی انتقال کی خبر نے ہر جگہ کو سوگوار کر دیا ہے .آپ 6 دسمبر 1932 کو لاہور سے ملحقہ ایک گاؤں مونگنا نوالہ میں پیدا ہوئے .آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے ہی حاصل کی .آپ نے 1955 میں ایف – اے کا امتحان پاس کیا اور 1958 میں ایف سی کالج لاہور سے بی – اے کی ڈگری حاصل کی .پهر اپنی تعلیم کا سلسلہ آگےبڑھاتے ہوئے آپ نے 1960 میں پنجاب یونیورسٹی سے فارسی زبان و ادب میں ایم – اے کا امتحان پاس کیا اور پهر اس کے فوراً بعد ہی آپ پی – ایچ – ڈی کرنے ایران تشریف لے گئے اور 1963 میں تہران یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی .وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب آپ پاکستان تشریف لائے تو اورینٹل کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے آپ کی تقرری ہو گئی .اور یوں آپ کے علمی اور ادبی سفر کا آغاز ہوا .یہ سفر طے کرتےکرتے آپ 1982میں پروفیسر کے عہدے تک جا پہنچے .آپ بہت عرصے تک صدر شعبہ فارسی ، پرنسپل اورینٹل کالج ، ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ اور صدر مسند اقبال بهی رہے .آپ 1992 میں ریٹائرڈ ہوئے تو آپ کو علمی خدمات کی صلے میں تا حیات پروفیسر اور صدر شعبہ اقبال کی حیثیت سے منتخب کر لیا گیا .
آپ نےتقریباً نوے برس عمر پائی جس میں سے ستر سال تک آپ فارسی زبان و ادب کی نشر و اشاعت کے لئے ہمیشہ کوشا رہے .جیسے کہ پہلے بهی ذکر ہوا آپ نہ فقط شفیق استاد اور محقق تهے بلکہ ایک بہت ہی اچهے شاعر بهی تهے اور شاعری میں اپنا تخلص اکرام کیا کرتے تهے .آپ نے بارہا ایران مین منعقده کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کی اور اپنی فارسی خوش کلامی کے باعث ایرانیوں سے داد وصول کرتےرہے .کہا جاتا ہےکہ اقبال مولانا کی پیرو کار تهے اور آپ اقبال کے عاشق .یہی وجہ ہے کہ آپ نے بیشتر کام اقبال کی حوالے سے کیا .جن میں اردو اور فارسی دونوں زبانوں کی ہی کتابیں موجود ہیں .مخصوصاً اقبال در راه مولوی آپ کی ایسی کتاب تهی جس کو ایران میں بهی بہت پذیرائی حاصل ہوئی اورجس کی تعریف اپنی ایک تقریر میں جناب آیت الله خامنہ ای نےبهی کی .جو کہ یقیناً بہت ہی اعزاز کی بات تهی .
یہ بات بهی قابل ذکر ہے کہ فارسی زبان و ادب کا استاد ہونے کی حیثیت سیےوه آغاز سے لے کر آج تک تاریخ ادبیات فارسی پر مکمل دسترس رکهتےتهے اور یہی وجہ تهی کہ انہوں نےتقریباً سبهی معروف شعرا کو اپنی اشعار میں جگہ دی مثلا ً فرماتے ہیں :
من برای دوستان نکتہ دان می سرایم داستان فارسی
از کلام رودکی آید همی بوی جوی مولیان فارسی
کیست فردوسی مسیحای سخن زنده از او گشتہ جان فارسی
شمع شعر اکرام برافروختم روشن است از من نشان فارسی
آپ نہ صرف بہت سی اردو کتابوں کے خالق تهے بلکہ فارسی میں بهی آپ نےکافی کتابیں مرقوم فرمائیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
اردو کتب :آثار اولیاء ، اقبال ایک تحریک ، اقبال اور ملی تشخص ، اقبال مشرق کا بلند ستاره
فارسی کتب :آثار الشعراء، اقبال در راه مولوی ، اقبال و جهان فارسی ، تنبیبہ الغافلین از سراج الدین علی خان آرزو (مقدمہ ، تصحیح و تحشیہ)، داد سخن(تصحیح و ترتیب) ، فارسی در پاکستان (مقالات سیمنار فارسی ) کارنامہ سراج منیر از سراج الدین علی خان آرزو (با مقدمہ ، تصحیح و تحشیہ) وغیره شامل ہیں
اس کے علاوه شاعر کی حیثیت سے آپ کے تین فارسی کے شعری مجموعے اور ایک اردو شعری مجموعہ شائع ہوا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے: پروانہ پندار 1963 میں شائع ہوا ، سکہ عشق مجموعہ غزلیات فارسی 1974 میں ، تیسرا شعری مجموعہ شہاب ثاقب 1975 میں اور پهر سفینہ سخن ، کےعنوان سے فارسی کا شعر ی مجموعہ جو کہ رایزنی فرهنگی سفارت جمہوری اسلامی ایران کے توسط سے1992 میں شائع ہوا اس کے علاوه آپ نے اردو زبان میں بهی شاعری کی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا .آپ کا اردو شعر ی مجموعہ آئینہ آفاق کے عنوان سے 2011 میں شائع ہوا۔
کتب کے علاوه آپ کے لا تعداد اردو اور فارسی کےمقالات بهی وقتاً فوقتاً ایران اور پاکستان کے مجلات کی زینت بنتے رہے جن کی ایک مفصل لسٹ ہے جو کہ یہاں لانا ممکن نہیں .مختصر یہ کہ آپ نے کئی عشروں تک استاد ، محقق اور شاعر اور اقبا ل شناس کی حیثیت سے فارسی زبان و ادب کی ترویج کے لئے کوششیں کیں اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کی کاوشیں ایران و پاکستان دوستی کو مزید مضبوط بنانے میں بهی بارور ثابت ہوئیں تو یہ بے جا نہ ہوگا.آپ کی فارسی دوستی کی مثال اس سے زیاده کیا ہو گی کہ آپ نے اپنے بیٹے کو بهی اسی راستے کا مسافر بنایا .ڈاکٹر محمد فرید اکرم شاه صاحب کے فرزند ہیں جنہوں نے فارسی زبان و ادب میں داکٹریٹ کی ڈگری تہران یونیورسٹی سے حاصل کی اور آج کل اقبال چیئر کے ہیڈ کی حیثییت سے اپنے وظایف انجام دے رہےہیں .
ایران میں شادی بیاہ کی رسومات ←
آخر میں اپنی ہر دل عزیز استاد میڈم رضیہ کے اشعار کو نقل کرنا چاہوں گی کہ جنہوں نے آپ کی رحلت کی خبر سننےکے بعد ان اشعار کولکها اور پڑها :
اقیانوس علم بود اکرم شاه شاه استادان بود اکرم شاه
باغبان چمنستان علم بود اکر م شاه معلم بی نظیر و کوشا بود اکرم شاه
هر بوتہ اش درخت پر بار شده از دریای علم اش سیراب شده
خدمت گزار فارسی بود اکرم شاه مرد راستگو و اقبال شناس بود اکرم شاه
ستاره درخشان آسمان علم و ادب افتخار پاکستان و ایران بود
اجل رسید و شد جدا از ما روحش شاد و نامش جایدان باد
بوی خوش یادشان همیشہ با ماست ز نگاه ناپدید اما در دلهای ماست
مقام شان بهشت برین باشد اکرم شاه در رحمت خدا باشد