ایران کی پہلی طبیب خواتین

مختلف ادوار میں ایرانی خواتین کو بہت سی پابندیوں کا سامنا رہا ہے ،خاص طور پر شہری علاقوں میں خواتین کے لیے پابندیاں زیادہ نمایاں تھیں لیکن قاجاری دور کے وسط میں سماجی تبدیلیوں کی وجہ سے ایرانی خواتین طب کے میدان میں سامنے آنے کے قابل ہوئیں۔
ایران کی پہلی طبیب خواتین
اس مضمون کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔
ایران کی پہلی طبیب خواتین

 

مختلف ادوار میں ایرانی خواتین کو بہت سی پابندیوں کا سامنا رہا ہے ،خاص طور پر شہری علاقوں میں خواتین کے لیے پابندیاں زیادہ نمایاں تھیں لیکن قاجاری  دور کے وسط میں سماجی تبدیلیوں کی وجہ سے ایرانی خواتین طب کے میدان میں سامنے آنے کے قابل ہوئیں۔

جیسا کہ ناصر الدین شاہ کے دربار کے یورپی معالج ایڈورڈ پولاک نے اپنی کتاب "ایران اور ایرانیان ” میں تہران میں کئی خواتین ماہر امراض چشم کی سرگرمیوں کے بارے میں کہا ہے جو بیماریوں کے علاج میں اپنی مہارت کی وجہ سے مشہور تھیں۔ ایرانی خواتین دواؤں کے پودوں کے بارے میں علم ہونے کی وجہ سے روایتی ادویات کے میدان میں بہت ماہر تھیں اور انہیں بیماریوں کے علاج کے لیے لوگوں کو تجویز کرتی تھیں۔ مقالہ حاضر  میں ہم ان پہلی خاتون ایرانی ڈاکٹروں کے بارے میں بات کرنے جارہے ہیں جنہوں نے پہلی بار میڈیسن کو بطور  پیشہ اختیارکیا اور جن کے نام تاریخی کتابوں میں درج ہیں۔

اقدس غربی – پہلی خاتون ایرانی ڈاکٹر جس نے فارمیسی کے شعبے میں تعلیم حاصل کی                                                                                                                             

اقدس غربی اور اختر فردوس پہلی ایرانی خواتین تھیں جنہوں نے پہلے پہلوی دور میں تہران یونیورسٹی میں فارمیسی کے شعبے میں گریجویشن کیا

اقدس غربی جنہوں نے تہران کے امریکن کالج میں تعلیم حاصل کی اور فارمیسی کا پیشہ اختیار کیا، وہ 1331 هجری قمری میں مغربی فارمیسی کی بانی تھیں،جو ایران میں پہلا جدید دواخانہ تھا، جو  تہران کی چراغ برگ اسٹریٹ پر واقع تھا۔

 

سکینہ پری-ایران کی پہلی خاتون سرجن                                       

سکینہ پری، پہلی خاتون ایرانی ڈاکٹر اور سرجن جنہیں بندرگز شہر میں سپرد خاک کیا گیا۔ پہلی خاتون سرجن 1283 میں ہمدان شہر میں پیدا ہوئیں۔ سکینہ پری ریحانہ اور نصراللہ ہمدانی کی اولاد تھیں جنہوں نے سابق سوویت یونین میں میڈیکل کی ڈگری حاصل کی اور 1312 میں سرجری اور آنکولوجی میں اپنی مہارت مکمل کی۔ پہلی خاتون ایرانی سرجن اور آنکولوجسٹ نے سوویت ہسپتالوں میں 5 سال تک ادویات کی مشق کی۔ والدین کےانتقال کے وہ ایران میں دلچسپی کے باعث اپنی اکلوتی بہن کے ساتھ ایران چلی آئی ۔ ایران واپس آنے کے بعد، میڈیکل لائسنس حاصل کرنے کے لیے سکینه پری نے 1313 میں ایک امتحان میں حصہ لیا اور ورک پرمٹ حاصل کیا۔ ترکی زبان پر عبور کی وجہ سے اس نے ماہی گیری کی کمپنی کا قراسو شہر میں کام کرنے کی پیشکش قبول کر لی اور وہ 14 سال تک اسی شہر میں مقیم رہی.

 

نصرت الملوک -فارنزک میڈیسن میں پہلی ایرانی خاتون ڈاکٹر                                                   

نصرت الملوک کاشانچی پہلی ایرانی خاتون ڈاکٹر تھیں جنہوں نے فرانزک میڈیسن کے شعبے میں گریجویشن کیا۔ وہ یونیورسٹی میں داخل ہونے والی پہلی دس ایرانی خواتین میں سے ایک تھیں اور ان کا نام فارنزک میڈیسن میں کام کرنے والی پہلی ایرانی خاتون ڈاکٹر کے طور پر درج ہے۔ نصرت الملوک کاشانچی 1293 میں پیدا ہوئی۔ ان کے والد  اپنے وقت کے مشہور اور امیر تاجروں میں سے ایک تھے۔

اس نے سب سے پہلے تہران یونیورسٹی میں مڈوائفری کی تعلیم حاصل کی اور پھر یورپ گئے اور دوسری جنگ عظیم تک اپنی تعلیم جاری رکھی اور پیرس  چلی گئ اور آخر کار ایران واپس آگئ۔ ایران کی پہلی خاتون فرانزک ڈاکٹر نے شہر کے جنوب میں اپنے والد کی عمارتوں میں سے ایک میں اپنا کام شروع کیا، جہاں اس نے خواتین کے لئے پولی کلینک قائم کیا، اور غیر مراعات یافتہ خواتین کو مفت دورے اور مشاورت بھی فراہم کی۔ نصرت الملوک ناخواندگی کو خواتین کی بدحالی کا ایک سبب سمجھتی تھی، اس لیے اس نے کلینک کے ساتھ ہی ناخواندہ خواتین کے لیے اکابر کی کلاس کے طور پر ایک کلاس کھولی اور اس کی پڑھی لکھی طالبات کو پڑھانے کے لیے استعمال کیا۔تہران کے جنوبی علاقے میں زچگی کا اسپتال قائم کرنے کے لیے انھوں نے اچھے تاجروں سے مدد لی جو ان کے والد کے دوست تھے اور انھوں نے بازارگان کے نام سے ایک بہترین اسپتال قائم کیا اور اس کا انتظام انھوں نے خود سنبھال لیا۔ اس کے بعد انہوں نے عدلیہ میں کام کیا لیکن ہسپتال کا کام بھی انہوں نے ہی سنبھالا۔ نصرت الملوک کاشانچی پہلی ایرانی خاتون ڈاکٹر ہیں جو وزارت انصاف اور فرانزک میڈیسن میں ملازم تھیں اور فارنزک میڈیسن ڈیپارٹمنٹ میں خواتین کے شعبے کی بانی بھی تھیں۔ وہ ان اچھی ایرانی خواتین میں سے ایک تھیں جنہوں نے اپنی تمام تنخواہ غریبوں پر خرچ کی اور کمزور ملازمین کو دوائی فراہم کی۔ فارنزک میڈیسن کا مطالعہ کرنے میں کامیاب ہونے والی پہلی ایرانی خاتون ڈاکٹر 1369 میں انتقال کر گئیں اور اپنے پیچھے بہت سی اچھی یادیں اور خدمات چھوڑ گئیں۔

 

 

مینا ایزدیار- پہلی خاتون ایرانی ڈاکٹر جس نے ایرانی تھیلیسیمیا سوسائٹی کی بنیاد رکھی                                                   

مینا ایزدیار پہلی ایرانی خاتون ڈاکٹر ہیں جو ایرانی تھیلیسیمیا ایسوسی ایشن قائم کرنے میں کامیاب ہوئیں اور ان کا نام اس ایسوسی ایشن کے بانی کے طور پر رجسٹر کیا گیا، جنہیں ایرانی تھیلیسیمیا کے مریضوں کی ماں کا لقب دیا گیا ہے۔ یہ ایرانی خاتون 1328 میں کرمان شہر میں پیدا ہوئیں اور ڈیڑھ سال کینسر سے لڑنے کے بعد 1392 میں ، امریکہ میں انتقال کر گئیں۔ مینا ایزدیار نے 1346 میں تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ 1362 میں ایران کی تھیلیسیمیا سوسائٹی کے قیام کا پہلا قدم اس خاتون نے اٹھایا.آخر کار، 1368 میں، وہ ایران میں اس انجمن کو باضابطہ طور پر رجسٹر کروانے میں کامیاب ہوئیں اور ڈاکٹر مینا ایزدیار نے اس کی صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔اب اس انجمن کی 28 ساله خدمات کے بعد، ایران واحد ترقی پذیر ملک ہے جہاں تھیلیسیمیا کے تمام مریضوں کی شناخت کی گئی ہے اور تھیلیسیمیا ایسوسی ایشن کا احاطہ کیا گیا ہے۔

 

ایرانی تاریخ کی معروف ملکائیں

 

آذر اندامی-پہلی ایرانی خاتون ڈاکٹر جو ایران میں ہیضے کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوئیں                                

آذر اندامی پہلی ایرانی خاتون ڈاکٹر تھیں جو ایران میں ہیضے کی ویکسین تیار کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ خاتون 1305 میں رشت میں پیدا ہوئیں اور اسی شہر سے 1324 میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1325 میں وزارت ثقافت میں ملازم ہوئیں۔ آذر اندامی کو 1331 میں تہران یونیورسٹی کے طبی شعبے میں داخلہ دیا گیا اور 1337 میں میڈیکل کی ڈگری حاصل کی۔میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد، آذر نے فوری طور پر گائناکالوجی کے شعبے میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور اسی سال ماؤں کی امدادی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ اپنا خصوصی کورس مکمل کرنے کے بعد، اس نے پاستور انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنا شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد ایران میں ہیضہ پھیل گیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کی اموات واقع ہوئی۔ اُس وقت آذر اندامی اعلیٰ معیار کی ویکسین تیار کرکے لوگوں کی مدد کو پہنچی اور ایران کے اندر مریضوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ہیضے کی ویکسین ہمسایہ ممالک کو بھیجی۔ اس ایرانی خاتون ڈاکٹر کی عظیم خدمات پر انہیں سائنسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

 

سادات سید باقر مداح – ایران   میں  جدید نرسنگ کی ماں                          

سادات سید باقر مداح، 1311 میں تہران میں پیدا ہوئی، وه ایک نرس ڈاکٹر ہیں۔آپ نے یونیورسٹی آف پریٹوریا، جنوبی افریقہ سے نرسنگ کی تعلیم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں جدید نرسنگ کی ماں اور ایران میں نرسنگ کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ڈاکٹر سادات سید باقر مداح نے فروری 1330 میں 18 سال کی عمر میں بطور نرس رجسٹرڈ ہو کر نرسنگ کا آغاز کیا۔   پھر اس نے 1343 سے 1345 تک کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی سے نرسنگ کی تعلیم میں دوسری بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور 1349 میں تعلیمی علوم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔آخرکار اس نے 1976 میں یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقہ سے نرسنگ کی تعلیم میں ڈاکٹریٹ حاصل کی۔ اس نے اپریل 2018 میں نرسنگ کی کلاسیں شروع کیں اور جون 2018 میں گریجویشن کیا اور نرسنگ کی کوچنگ لی۔

ڈاکٹر مداح بیچلر سے لے کر ڈاکٹریٹ تک مختلف یونیورسٹیوں کی سطحوں پر کل وقتی لیکچرار ہیں، وہ تعلیمی عملے کی رکن اور 1334 سے اب تک پرسٹا ہائر ایجوکیشن سینٹرز کی معاون بهی ہیں.ڈپٹی ہیڈ آف ایجوکیشن اور فیروزگر ہائر انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ کی سربراہ، میڈیکل سائنسز کی نرسنگ اور مڈوائفری فیکلٹی کی سربراہ ان کی ملازمت کے دیگر عنوانات میں شامل ہیں۔

ڈاکٹر بدری تیمورتاش- ایران کی پہلی خاتون ڈینٹسٹ                                       

ڈاکٹر بدری تیمورتاش 1287ھ میں مشہد میں پیدا ہوئی، ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد وہ دندان سازی میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بیلجیم چلی گئِیں۔ 1319 میں، انهوں نے تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ڈینٹسٹری میں داخلہ لیا اور ۱۳۲۱ میں، اس نے ایران میں ڈینٹل لائسنس حاصل کیا۔انہیں ایران کی دندان سازی کی ایک بااثر خاتون اور اس شعبے کی "ماں” کہا جا سکتا ہے اور وہ پہلی خاتون تھیں جنہیں باضابطہ طور پر ملک میں دندان سازی کی فیکلٹی کی سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔فارسی اور فرانسیسی زبانوں میں ان کی بہت سی تخلیقات ہیں۔ڈاکٹر بدری تیمورتاش کا انتقال 17 اکتوبر 2004 کو ہوا۔بدر الزماں تیمورتاش صحت اور علاج کے میدان میں سفید فاموں کا ایک جانا پہچانا نام ہے اور نوجوان ڈاکٹروں کے لیے مشعل راہ ہے۔

 

تجویز کردہ مضامین:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے