ایرانی موسیقی
موسیقی روح کی غذا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے سازوں کا ذکر ہوا ہے جو لطیف موسیقی ایجاد کرتے تھےاور انسانی روح پر اپنا گہرا اثر چھوڑ جاتے تھے، انسان جب بہت خوش ہوتا ہے تو وہ اپنی خوشی کے اظہار میں محو رقص ہو جاتا ہے۔ ایرانی موسیقی بھی بہت لطیف ہے۔ روح انسانی پر اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ باربد نے پہلے بار موسیقی کے کچھ آلات بنائے جن میں بانسری اور چنگ شامل ہیں۔ اگر ہم ایران کی تاریخ کا مشاہدہ کریں تو ایران کے ھخا منشی دور میں موسیقی کا مذہبی تہوار اور داد گاہوں میں خاص استعمال کرتے تھے۔
ایرانی موسیقی کے بارے میں جو تحقیق عمل میں آئی ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا تا ہے کہ موسیقی ساسانی دور میں بھی قابل توجہ تھی ۔ ساسانی بہت سے آلات موسیقی استعمال کرتے تھے۔ ساسانی دور کا مشہور موسیقی دان باربد تھا جسے ایرانی موسیقی کا موجد سمجھا جاتا ہے ۔ کہتے ہیں جب وہ چنگ بجاتا تھا تو نہ صرف انسان بلکہ پرندے اور جانوروں پر بھی اُس کا بہت اثر ہوتا تھا۔ قاچاری دور میں بھی ایسے کئی موسیقی دان پائے جاتے ہیں جیسے مرزا عبداللہ ستار نواز تھا جس نے مختلف معاشروں میں ایرانی موسیقی کی تعلیم دی۔
ھخا منشی دور میں زردشتی اپنی عبادت گاہوں میں اپنی مذہبی کتاب "گاتا” کا حصہ گا کر ادا کرتے تھے۔ بعد از اسلام بھی محرم کے مہینے میں عاشورہ تک کی رسومات ادا کرتے ہوئے ایک خاص قسم کی موسیقی سے اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں۔ ایران کے ملک کو مختلف سازوں کی زادگاہ سمجھا جاتا ہے ۔ مختلف قسم کے موسیقی کے آلات اس سر زمین میں دیکھنے میں آئے ہیں۔ تار ، سہ تار، بربط، بانسری، رباب، تنبک اور دف وغیرہ۔ آج بھی ایرانی موسیقی دان ان آلات موسیقی سے استفادہ کرتے ہیں۔ ایرانی موسیقی کا منفرد مقام ہے ۔ موسیقی کی دنیا میں ایرانی موسیقی اپنا خاص مقام رکھتی ہے اور اپنے منفرد انداز سے سننے والا فوراً پہچانا جاتاہے کہ یہ موسیقی سر زمین ایران سے تعلق رکھتی ہے۔ دنیا کی ترقی اور پیشرفت نے موسیقی پر بھی اثر ڈالا اور پاپ موسیقی کا ایران میں بھی رواج شروع ہو گیا۔ موسیقار اپنی دھنیں پاپ موسیقی پر بنانے لگے لیکن اس کے باوجود ایرانی موسیقی پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ موسیقی دان اپنے قدیمی موسیقی کے آلات کو استعمال کرتے ہوئے ایسی دھنیں بجاتے ہیں جو آج بھی اپنی شناخت کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ بادشاہوں کے دربا ر میں بھی موسیقی دانوں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ، صفوی اور قاچاری دور میں چھوٹے لڑکوں کو دخترانہ لباس پہنا کر رقص کروایا جاتا تھا۔ یہ اَمر قابل ِ ذکر ہے انقلاب اسلامی کے بعد عورتوں کی موسیقی دنیا میں کچھ حد تک محدود کر دی گئی ہے اور ان کے ادائیگی کے لئے خاص قوانین بنائے گئے اور کچھ خاس قسم کی موسیقی پر بھی پابندی لگائی گئی ہے ۔ تاریخ ایران کا اگر ہم مشاہدہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ رقص کی تاریخ ایران میں بہت پرانی ہے۔ ساسانی بادشاہوں کے دربار میں بھی رقص کی خاص محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ ہنر رقص کو بھی ترویج دی جاتی تھی ۔ مہر پرستی کے زمانے سے رقص کی تاریخ کا اندازہ لگایا جاتا ہے ۔ ایرانی رقص بہت زیادہ رایج تھا اور یونانی کتابوں میں بھی اُس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ پہلوی دور میں بھی رقص اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی ممانعت نہیں تھی ۔ پہلوی دور میں رقص اور موسیقی کی محفلیں عام تھیں ۔ ایرانی اپنے روایتی رقص اور موسیقی سے بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ روایتی رقص زیادہ تر گروہ کی شکل میں ادا کیا جاتا ہے ۔ آذربایجان اور خراسان کے رقص کو لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ ایرانی لوگ موسیقی میں شاعروں کے کلام جیسے فردوسی کا شاہنامہ، دیوان حافظ سے انتخاب اور دوسرے شاعروں کے کلام کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا جاتا ہے ۔ ایرانی موسیقی کو سنتے ہی بادشاہوں کے دربار اور تاریخی عناصر یاد آتے ہیں۔ تاریخ میں جیسا ذکر ہوا ہے خسرو پرویز اور بہرام گور رقص اور موسیقی کے بڑے شیدائی تھے۔ بہرام گور نے اپنے عہد میں بارہ ہزار گانے بجانے والوں کو ہندوستان سے بلوایا تھا ۔ بہرام گور اور خسرو پرویزکے عہد میں فن موسیقی کے نئے نئے آلات بھی متعارف ہوئے ۔ دف، بربط، چنگ، شہنائی اور بانسری اس وقت کے مشہور موسیقی آلات تھے ۔ ایرانی موسیقی نے اپنے اثرات ہندوستان پر بھی مرتب کئے ۔
ایران میں شادی بیاہ کی رسومات ←
ایرانی شہنشاہوں کے محلوں کے دروازوں پر پانچ مرتبہ نوبت بجائی جاتی تھی یہی رسم مغل بادشاہوں کے دور ہندوستان میں بھی داخل ہوئی۔ موسیقی نے ایران کی تاریخ میں ایرانیوں کی زندگیوں میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ صفوی دور میں موسیقی نے اور بھی ترقی کی منازل طے کیں۔ موسیقی نے ایران کی تاریخ میں ایرانیوں کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ایران کے لوگ موسیقی کو بہت پسند کرتے ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں نے اپنی 2500 سالہ تاریخ میں نہ صرف اپنے لئے ایک مخصوص قسم کی موسیقی ایجاد کی بلکہ موسیقی کے لئے بہت سے آلات بھی بنائے ۔ قدیم زمانے میں بنائے گئے آلات کو نہایت ہنر کے ساتھ بنایا جاتا تھا اور بعد میں بنائے جانے والے آلات کو انہی قدیم آلا ت کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ نصیر الدین شاہ نے خانہ ہنر کی بنیاد رکھی جہاں موسیقی کے آلا ت کو بنائے جانے کے ساتھ ان کی خریدو فروخت بھی ہوتی تھی آج بھی ایرانی موسیقی اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں ایرانی موسیقی کے بہت شیدائی پائے جاتے ہیں خاص کر اسلامی ممالک میں اپنے قدیم طرز کی دُھن پر بجائے جانے والے ساز بہت مشہور ہیں۔